آیات 124 - 125
 

اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِہٖۤ اَلَا تَتَّقُوۡنَ﴿۱۲۴﴾

۱۲۴۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے؟

اَتَدۡعُوۡنَ بَعۡلًا وَّ تَذَرُوۡنَ اَحۡسَنَ الۡخَالِقِیۡنَ﴿۱۲۵﴾ۙ

۱۲۵۔ کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور سب سے بہتر خلق کرنے والے کو چھوڑ دیتے ہو؟

تفسیر آیات

۱۔ اَلَا تَتَّقُوۡنَ: بت پرستی کے نتیجے میں آنے والی ابدی تباہی سے اپنا بچاؤ نہیں کرتے۔ انبیاء علیہم السلام انسانوں کو تباہی سے بچانے کے لیے مبعوث ہوتے ہیں۔ اسی لیے ان کی تعلیمات میں انذار کا پہلو زیادہ ہوتا ہے بہ نسبت بشارت کے۔

۲۔ اَتَدۡعُوۡنَ بَعۡلًا: تعجب ہے تم احسن الخالقین کو چھوڑ کر بَعْل کو پوجتے ہو۔

بعل: اہل کنعان کے سب سے بڑے بت کا نام ہے۔ دراصل بعل کے معنی بلندی کے ہیں۔ اسی سے اس درخت کو بعل کہتے ہیں جو بلند ہو گیا ہو اور اپنی جڑوں کے ذریعے پانی جذب کرتا ہو۔ باب زکوٰۃ میں ہے: اذا کانت سیحا او بعلا العشر۔ (حدیث نبوی) اگر نہر یا جڑوں سے سیراب ہوتا ہے تو دسواں حصہ زکوٰۃ ہے۔اسی سے سردار، مالک اور شوہر کو بھی بعل کہتے ہیں۔

قدیم بت پرستوں نے اپنے ایک خاص بت کو بعل کا نام دیا تھا۔ خصوصاً لبنان، شام اور فلسطین کے علاقوں میں بعل پرستی عام تھی اور اس کے ساتھ ایک دیوی بھی تھی جو عشقا روث کے نام سے موسوم تھی۔

کہتے ہیں: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں اسی بت کو مولک کہتے تھے۔ اس بت کی شکل انسان کی شکل میں تھی۔ سر گوسالہ کا جس کے دو سینگ ہیں۔ سر پر تاج، ایک کرسی پر دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے گویا کوئی چیز وصول کر رہا ہے۔ یہ تانبے سے بنا ہوا اندر سے خالی تھا۔ ایک تنور کی مانند چبو ترے پر رکھا ہوا ہوتا تھا۔ وہ اس تنور کے اندر آگ جلاتے تھے اور لوگ اپنی قربانیوں کو اس کے ہاتھوں پر رکھتے تو سادہ لوح لوگ یہ سمجھتے تھے کہ معبود نے اس کی قربانی کو جلا کر قبول کیا ہے۔ پیرس کے عجائب گھر میں بعل کی ایک مورتی موجود ہے جو پتھر سے تراشی ہوئی ہے۔ انسان کی شکل میں ہے۔ سر پر ایک خود ہے جس کے دوسینگ ہیں۔ اس کے ہاتھ میں ایک گھنٹی ہے۔ شاید بعض قوموں کے نزدیک بعل کی یہ شکل ہو گی۔ ( التحریر والتنویر ذیل آیت)

حضرت الیاس علیہ السلام کی آمد کی خبر تو پہلے ہی بائبل میں دے دی گئی تھی مگر بنی اسرائیل نے انہیں نہیں پہچانا اور اذیت پہنچائی مگر بعد میں وہ حضرت الیاس علیہ السلام کے اس قدر عقیدت مند ہوگئے کہ یہ عقیدہ عام ہو گیا کہ انہیں آسمان میں اٹھا لیا گیا ہے، وہ پھر دنیامیں آنے والے ہیں۔

۳۔ وَّ تَذَرُوۡنَ اَحۡسَنَ الۡخَالِقِیۡنَ: بعل پرستوں کی عقلی بے مائیگی کے اظہار کے لیے نام لینے کی جگہ وَّ تَذَرُوۡنَ اَحۡسَنَ الۡخَالِقِیۡنَ فرمایا ہے کہ تم اَحۡسَنَ الۡخَالِقِیۡنَ کو چھوڑ کر ایک بد شکل، بے شعور، خود تراشیدہ کو پوجتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق اپنی نوعیت میں سب سے بہتر ہے۔ وہ نوعیت یہ ہے کہ اللہ کی تخلیق ابداعی ہے یعنی عدم سے وجود میں لاتا ہے۔ اس نوعیت کی تخلیق پر غیر خدا، کوئی اور قادر نہیں ہے۔ انسان کی تخلیق تقدیری ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۃ المؤمنون : ۱۴۔


آیات 124 - 125