آیت 50
 

قُلۡ اِنۡ ضَلَلۡتُ فَاِنَّمَاۤ اَضِلُّ عَلٰی نَفۡسِیۡ ۚ وَ اِنِ اہۡتَدَیۡتُ فَبِمَا یُوۡحِیۡۤ اِلَیَّ رَبِّیۡ ؕ اِنَّہٗ سَمِیۡعٌ قَرِیۡبٌ﴿۵۰﴾

۵۰۔ کہدیجئے: اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں تو اس گمراہی کا نقصان خود مجھے ہی ہے اور اگر میں ہدایت یافتہ ہوں تو یہ اس وحی کی بنا پر ہے جو میرے رب کی طرف سے مجھ پر ہوتی ہے، اللہ یقینا بڑا سننے والا قریب ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ اِنۡ ضَلَلۡتُ: کہدیجیے: فرض کر لیتے ہیں کہ جیسا تم کہتے ہو میں گمراہ ہوں تو میں اس صورت میں گمراہ ہو سکتا ہوں جب میرا سارا تکیہ اپنے نفس پر ہو: اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ۔۔۔۔ (۱۲ یوسف: ۵۳)

۲۔ وَ اِنِ اہۡتَدَیۡتُ: اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو اس ہدایت کا واحد مصدر وحی ہے۔ وحی کی صورت میں گمراہی ممکن نہیں ہے۔ میرا موقف یہ ہے کہ میں جو بات بھی کرتا ہوں اپنے نفس کی خواہش کی بنیاد پرنہیں کرتا کہ گمراہی کا شائبہ ہو بلکہ وحی کے ذریعے بات کرتا ہوں۔ یہ وحی اس رب کی طرف سے ہے جو ہر بات کا سننے والا سمیع ہے اور ہر عمل سے کسی فاصلے پر نہیں ہوتا، قریب ہے۔

اہم نکات

۱۔ گمراہی نفس امارہ کی طرف سے آسکتی ہے۔

۲۔ ہدایت کا واحد مصدر وحی ہے۔


آیت 50