آیات 48 - 49
 

قُلۡ اِنَّ رَبِّیۡ یَقۡذِفُ بِالۡحَقِّ ۚ عَلَّامُ الۡغُیُوۡبِ ﴿۴۸﴾

۴۸۔ کہدیجئے: میرا رب یقینا حق نازل فرماتا ہے اور وہ غیب کی باتوں کا خوب جاننے والا ہے۔

قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَ مَا یُبۡدِئُ الۡبَاطِلُ وَ مَا یُعِیۡدُ﴿۴۹﴾

۴۹۔ کہدیجئے: حق آگیا اور باطل نہ تو پہلی بار ایجاد کر سکتا ہے اور نہ ہی دوبارہ پلٹا سکتا ہے۔

تشریح کلمات

یَقۡذِفُ:

( ق ذ ف ) اصل میں قذف دور پھینکنے کو کہتے ہیں۔ یہاں اوپر سے نیچے نازل کرنے کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یَقۡذِفُ بِالۡحَقِّ: اللہ تعالیٰ اہل حق اور حق کی اہلیت رکھنے والوں کے دل میں پورے اہتمام کے ساتھ حق القاء کرتاہے۔ بقول بعض الحق سے مراد قرآن ہے۔ اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہو گا: اللہ تعالیٰ حق اور قرآن، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل پر پوری قوت کے ساتھ نازل فرماتا ہے جس میں کسی قسم کی کمزوری کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ اگلی آیت اس مطلب کے لیے مؤید بن سکتی ہے۔

۲۔ قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ: حق آنے کے بعدباطل بے اثر ہو گیا۔ نہ کرنے کا رہا، نہ دھرنے کا۔ کرنا دھرنا زندگی کی علامت ہے۔ باطل عدم محض ہے۔ عدم منشاء آثار نہیں ہوتا۔ اس آیت میں بظاہر حق سے مراد قرآن اور باطل سے مراد کفر و شرک ہے۔ قرآن، جو حق ہے، کے مقابلے میں شرک کا اب کوئی کردار نہیں رہے گا۔ چنانچہ روایت میں آیا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر دیکھا کعبہ میں تین سو ساٹھ بت آویزاں ہیں تو اپنے ہاتھ میں ایک لاٹھی لے کر ان بتوں پر مارتے جاتے اور فرماتے تھے:

وَ قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا﴿۸۱﴾ (۱۷ اسراء: ۸۱)

اور کہدیجیے: حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل کو تو یقینا مٹنا ہی تھا۔

قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَ مَا یُبۡدِئُ الۡبَاطِلُ وَ مَا یُعِیۡدُ

کہدیجیے: حق آگیا اور باطل نہ تو پہلی بار ایجاد کر سکتا ہے اور نہ ہی دوبارہ پلٹا سکتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ قرآن آنے کے بعد شرک کا کوئی کردار باقی نہیں رہا۔

۲۔ باطل نہ کسی کردار کا آغاز کر سکتا ہے، نہ اعادہ۔


آیات 48 - 49