آیت 33
 

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا لِلَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا بَلۡ مَکۡرُ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ اِذۡ تَاۡمُرُوۡنَنَاۤ اَنۡ نَّکۡفُرَ بِاللّٰہِ وَ نَجۡعَلَ لَہٗۤ اَنۡدَادًا ؕ وَ اَسَرُّوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَاَوُا الۡعَذَابَ ؕ وَ جَعَلۡنَا الۡاَغۡلٰلَ فِیۡۤ اَعۡنَاقِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ ہَلۡ یُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ اور کمزور لوگ بڑا بننے والوں سے کہیں گے: بلکہ یہ رات دن کی چالیں تھیں جب تم ہمیں اللہ سے کفر کرنے اور اس کے لیے ہمسر بنانے کے لیے کہتے تھے، جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے تو دل میں ندامت لیے بیٹھیں گے اور ہم کفار کی گردنوں میں طوق ڈالیں گے، کیا ان کو اس کے سوا کوئی بدلہ ملے گا جس کے یہ مرتکب ہوا کرتے تھے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا: کمزور طبقے کا یہ جواب ہو گا: درست ہے ہم تک ہدایت پہنچ گئی تھی، حجت پوری ہو گئی تھی اس وجہ سے ہم مجرم ضرورہیں مگر اس میں تمہارا کردار بنیادی تھا۔

۲۔ بَلۡ مَکۡرُ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ: وہ بنیادی کردار تمہاری دن رات کی چالیں اور تمہارے شب و روز کی فریب کاریاں تھیں۔

۳۔ اِذۡ تَاۡمُرُوۡنَنَاۤ اَنۡ نَّکۡفُرَ بِاللّٰہِ: تم نے ہمارے کفر اختیار کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال اور اللہ کے لیے شریک بنانے میں تم نے جو کردار ادا کیا، وہ بھی معلوم ہے۔

۴۔ وَ اَسَرُّوا النَّدَامَۃَ: اس گفتگو کے مکمل ہونے کے بعد جب عذاب کا فیصلہ ہوتا ہے اور عذاب سامنے آ جاتا ہے تو اس وقت دونوں فریق دل میں ندامت لیے بیٹھیں گے۔

۵۔ وَ جَعَلۡنَا الۡاَغۡلٰلَ: عذاب کے مشاہدے کے بعد اب عذاب شروع ہو جاتا ہے اور ان کی گردنوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔

۶۔ ہَلۡ یُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ: دنیا میں جو ان کا عمل ہو گا، وہی عمل سزا بن کر ان کی گردن کا طوق بن جائے گا۔ عمل انرجی ہے۔ انرجی دائمی چیز ہے کہ یہ عمل اگر اچھا ہے تو انسان کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور اگر برا ہے تو انسان کی جان نہیں چھوڑتا مگر یہ کہ اللہ عفو اور مغفرت کے طور پر اس عمل کے اثر کو زائل فرما دے۔ برُے عمل کا اثر زائل کرنے کو مغفرت کہتے ہیں اور اچھے عمل کا اثر زائل کرنے کو حبط کہتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ طفیلی سوچ رکھنے والے فکری استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔

۲۔ انسان کا برا عمل انسان کی جان نہیں چھوڑتا: مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ۔


آیت 33