آیت 36
 

وَ اِذَاۤ اَذَقۡنَا النَّاسَ رَحۡمَۃً فَرِحُوۡا بِہَا ؕ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ اِذَا ہُمۡ یَقۡنَطُوۡنَ﴿۳۶﴾

۳۶۔ اور جب ہم لوگوں کو کسی رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر خوش ہو جاتے ہیں اور جب ان کے برے اعمال کے سبب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ مایوس ہونے لگتے ہیں۔

تفسیر آیات

جو شخص بھی ایک محکم اور استوار موقف پر قائم نہیں ہے وہ بدلتے حالات کی رو میں تنکے کی طرح بہ جاتا ہے۔ خوشحالی پر اترانا اور گردش ایام میں ناامیدی کی تاریکی میں ڈوب جانا بے موقف انسان کا شیوہ ہے۔ جب کہ اللہ پر پختہ یقین رکھنے والے لوگ جبل راسخ کی طرح ہوتے ہیں اور وہ تیز ترین آندھیوں سے نہیں ہلتے۔

آیت ۳۳ میں فرمایا: یہ لوگ مصیبت کے موقع پر اللہ کو پکارتے ہیں جب کہ اس آیت میں فرمایا: مصیبت کے وقت مایوس ہوتے ہیں۔ پکارنا مایوس نہ ہونے کی صورت میں ہوتا ہے جب کہ مایوس ہونے کی صورت میں پکارتے نہیں ہیں، تو کیا ان دونوں آیتوں میں تصادم ہے؟

اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ آیت ۳۳ میں ناگہانی آفت جیسے زلزلہ طوفان وغیرہ کی صورت میں مؤمن اور مشرک سب اللہ کی طرف رجوع کر کے دعا کرتے ہیں جب کہ اس آیت میں فرمایا: خود ان کے اپنے کیے کے نتیجہ میں قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ کوئی مصیبت پیش آتی ہے تو مایوس ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ قدرتی آفات اور اپنی شامت اعمال میں فرق ہوتا ہے۔


آیت 36