آیت 25
 

وَ قَالَ اِنَّمَا اتَّخَذۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَوۡثَانًا ۙ مَّوَدَّۃَ بَیۡنِکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ ثُمَّ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یَکۡفُرُ بَعۡضُکُمۡ بِبَعۡضٍ وَّ یَلۡعَنُ بَعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ۫ وَّ مَاۡوٰىکُمُ النَّارُ وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِیۡنَ﴿٭ۙ۲۵﴾

۲۵۔ اور ابراہیم نے کہا: تم صرف اس لیے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو لیے بیٹھے ہو کہ تمہارے درمیان دنیاوی زندگی کے تعلقات ہیں پھر قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار کرو گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجو گے اور جہنم تمہارا ٹھکانا ہو گا اور تمہارا کوئی مددگار بھی نہ ہو گا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَالَ اِنَّمَا اتَّخَذۡتُمۡ: بظاہر آتش نمرود سے نجات کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ارشادات کا ذکر ہے۔

۲۔ مَّوَدَّۃَ بَیۡنِکُمۡ: ان معجزوں کے بعد بھی بت پرستی کو ترک نہ کرنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اب بھی بتوں پر تمہارا عقیدہ و ایمان پختہ ہے بلکہ ان کی پرستش کا واحد محرک آپس کے روابط اور رشتے ہیں۔ وہ گہرے روابط اور محبت و ہمدردی کو حق پر قربان کرنے کے لیے آمادہ نہ تھے۔

آپس کے تعلقات اور برادری کی بندش ہی سبب ہے کہ تم اپنی برادری کے رسم و رواج سے باہر سوچتے نہیں ہو۔ اگر برادری کی بندش سے آزاد ہو جاتے تو تم حق کو ترجیح دیتے۔

آج بھی ہم اپنے معاشروں میں ایمانی قدروں کو برادری کی بندش پر قربان کرتے نظر آتے ہیں۔

۳۔ ثُمَّ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یَکۡفُرُ بَعۡضُکُمۡ بِبَعۡضٍ: قیامت کے دن نہ صرف یہ کہ یہ بندش ٹوٹ جائے گی بلکہ ایک دوسرے کے منکر ہو جائیں گے۔ مرید اپنے آقا کے، آقا اپنے مریدوں کے منکر ہو جائیں گے۔ نہ صرف انکار بلکہ وَّ یَلۡعَنُ بَعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ایک دوسرے پر لعنت کریں گے:

اَلۡاَخِلَّآءُ یَوۡمَئِذٍۭ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿﴾ (۴۳ زخرف: ۶۷)

اس دن دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔

اہم نکات

۱۔ ہر چیز ایمان پر قربان ہو سکتی ہے، ایمان کسی چیز پر نہیں۔


آیت 25