آیت 75
 

وَ نَزَعۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیۡدًا فَقُلۡنَا ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ فَعَلِمُوۡۤا اَنَّ الۡحَقَّ لِلّٰہِ وَ ضَلَّ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ﴿٪۷۵﴾

۷۵۔ اور ہم ہر امت سے ایک گواہ نکال لائیں گے پھر ہم (مشرکین سے) کہیں گے: اپنی دلیل پیش کرو، (اس وقت) انہیں علم ہو جائے گا کہ حق بات اللہ کی تھی اور جو جھوٹ باندھتے تھے وہ سب ناپید ہو جائیں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ ہر امت سے ایک گواہ پیش کیا جائے گا۔ یہ گواہ ایسے ہوں گے جن کی گواہی کے بعد اللہ تعالیٰ کی حقانیت بھی واضح ہو جائے گی اور اس کے خلاف کسی قسم کی دلیل بھی کارگر ثابت نہیں ہو گی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس گواہی کی نوعیت وہ نہ ہو گی جو ہماری دنیا میں متعارف ہے۔ گواہ کے بارے میں پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ گواہ وہ ہستی بن سکتی ہے جو اعمال کا مشاہدہ کرے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ گواہ وہ ہوگا جس کی گواہی کے بعد حقائق آشکار اور اللہ کی حقانیت روشن ہو جائے گی چونکہ یہ گواہی مشرکین کے معبودوں کے بارے میں قائم ہونے والے مقدمہ میں پیش ہو گی۔

۲۔ فَقُلۡنَا ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ: مشرکین سے کہا جائے گا۔ ان غیر اللہ کے معبود ہونے پر اپنی دلیل پیش کرو۔ یہ دلیل گواہوں کی گواہی کے مقابلے میں پیش ہونی چاہیے یا یہ کہیے مشاہدے اور عیاں ہونے کے مقابلے کی ہونی چاہیے۔

۳۔ فَعَلِمُوۡۤا اَنَّ الۡحَقَّ لِلّٰہِ: اس جگہ ان مشرکین پر یہ حقیقت کھلے گی کہ صرف اللہ تعالیٰ کا معبود ہونا برحق تھا۔ یہ حقیقت دنیا میں کھلی تھی لیکن قیامت کے دن مشاہدے کے ساتھ حقیقت سامنے آئے گی۔

۴۔ وَ ضَلَّ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ: جن موہومات کی وہ پرستش کرتے تھے ان کا وہاں نام و نشان نہ ہو گا۔


آیت 75