آیت 64
 

وَ قِیۡلَ ادۡعُوۡا شُرَکَآءَکُمۡ فَدَعَوۡہُمۡ فَلَمۡ یَسۡتَجِیۡبُوۡا لَہُمۡ وَ رَاَوُا الۡعَذَابَ ۚ لَوۡ اَنَّہُمۡ کَانُوۡا یَہۡتَدُوۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔ اور (ان سے) کہا جائے گا: اپنے شریکوں کو بلاؤ تو یہ انہیں پکاریں گے لیکن وہ انہیں جواب نہیں دیں گے اور وہ عذاب کو بھی دیکھ رہے ہوں گے، (اس وقت تمنا کریں گے) کاش وہ ہدایت پر ہوتے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قِیۡلَ ادۡعُوۡا شُرَکَآءَکُمۡ: ان سے کہا جائے گا: جنہیں تم نے شریک بنایا ہے انہیں آج کمک کے لیے بلاؤ کہ وہ تمہیں اس عذاب سے بچا لیں۔ یہ ان کی رسوائی کا اعلان ہے۔

۲۔ فَدَعَوۡہُمۡ فَلَمۡ یَسۡتَجِیۡبُوۡا لَہُمۡ: پس انہوں نے ان شریکوں کو پکارا۔ قیامت کے دن حقائق سامنے آ چکے ہوتے ہیں۔ ان کو علم ہو گیا ہوتا ہے کہ ان کے شریک تو ایک واہمہ کے علاوہ کچھ نہ تھے تو ان کو کیسے بلایا ہو گا؟ اس کا ایک جواب یہ ہے: اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ اپنے شریکوں کو بلاتے تو بھی کوئی جواب نہیں ملنا تھا یا اس کی توجیہ یہ ہو سکتی ہے: ادۡعُوۡا شُرَکَآءَکُمۡ ان مشرکین کی رسوائی کی ایک تعبیر ہے۔ اور فَدَعَوۡہُمۡ ان مشرکین کی حسرت کی تعبیر ہے کہ دنیا میں انہی بتوں اور غیر اللہ کو پکارتے رہے۔ آج اگر کچھ ان سے بنتا تو ضرور ان کو پکارتے۔

۳۔ وَ رَاَوُا الۡعَذَابَ: خود معبودوں سے کسی قسم کا جواب تو کیا ملنا تھا اس کی جگہ عذاب کا مشاہدہ ہونے لگا۔ اس وقت وہ آرزو کریں گے: کاش ہم ہدایت یافتہ ہوتے۔ آج کا یہ سیاہ دن دیکھنے کی نوبت نہ آتی۔ لَوۡ اَنَّہُمۡ کَانُوۡا یَہۡتَدُوۡنَ میں لَوۡ بمعنی تمنا لیا جائے گا۔

اہم نکات

۱۔ غیر مومن کے لیے قیامت کا دن حسرت کا دن ہے۔


آیت 64