آیت 61
 

اَفَمَنۡ وَّعَدۡنٰہُ وَعۡدًا حَسَنًا فَہُوَ لَاقِیۡہِ کَمَنۡ مَّتَّعۡنٰہُ مَتَاعَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ثُمَّ ہُوَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ مِنَ الۡمُحۡضَرِیۡنَ﴿۶۱﴾

۶۱۔ کیا وہ شخص جسے ہم نے بہترین وعدہ دیا ہے اور وہ اس (وعدے) کو پا لینے والا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جسے ہم نے صرف دنیاوی زندگی کا سامان فراہم کر دیا ہے؟ پھر وہ قیامت کے دن پیش کیے جانے والوں میں سے ہو گا

تفسیر آیات

اس آیت میں بھی دو زندگیوں کا موازنہ ہے کہ ایک زندگی یہ ہے کہ اللہ نے جس جنت اور نعمت سے مالا مال ابدی زندگی کا وعدہ کیا ہے، فَہُوَ لَاقِیۡہِ وہ وعدۂ الٰہی ہے۔ اس پر وعدہ خلافی کا امکان نہیں ہے:

اَلَاۤ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ ۔۔۔۔ (۱۰ یونس: ۵۵)

اس بات پر بھی آگاہ رہو کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔

جس زندگی میں وہ وعدہ الٰہی سے بہرہ ور ہو رہا ہے کیا یہ اس زندگی کی طرح ہو سکتی ہے جو چند روز کی زندگی کے وقتی عیش و آرام کے لیے گناہ کا بوجھ اٹھائے اور یہ بوجھ لے کر اللہ تعالیٰ کی عدالت میں اس مقدمہ کے لیے حاضر ہو جائے جس کے ہارنے کے نتیجے میں وہ اپنی ابدی زندگی ہار جاتا ہے؟

ابن عباس کی روایت ہے: اَفَمَنۡ وَّعَدۡنٰہُ ۔۔۔ حمزہؓ، جعفرؓ اور علی علیہ السلام کی شان میں ہے اور کَمَنۡ مَّتَّعۡنٰہُ ۔۔۔ ابوجہل کے بارے میں ہے۔ ( شواھدالتنزیل ذیل آیہ) اسی مضمون کی روایت مجاہد سے ابان بن تغلب اور ابن جریح نے بیان کی ہے۔ ملاحظہ ہو تفسیر طبری ذیل آیت۔

اہم نکات

۱۔ وعدہ الٰہی پر بھروسے سے ہی سعادت کی زندگی ملتی ہے۔

۲۔ دنیا کی زندگی میں کامیابی ابدی نجات کی علامت نہیں ہے۔

۳۔ غافلانہ زندگی کا انجام ذلت و رسوائی ہے۔


آیت 61