آیت 60
 

وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَمَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتُہَا ۚ وَ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ﴿٪۶۰﴾

۶۰۔ اور جو کچھ بھی تمہیں دیا گیا ہے وہ اس دنیاوی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ (اس سے) زیادہ بہتر اور پائیدار ہے، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ: جو لوگ حق کے ظاہر ہونے کے باوجود دنیوی زندگی کے متاثر ہونے کے خوف سے ایمان نہیں لا رہے ہیں ان سے یہ خطاب ہے جیسا کہ ان لوگوں نے کہا تھا:

اِنۡ نَّتَّبِعِ الۡہُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفۡ مِنۡ اَرۡضِنَا ۔۔۔۔۔

اگر ہم آپ کی معیت میں ہدایت اختیار کریں ہم اپنی زمین سے اچک لیے جائیں گے۔

اس کے جواب میں فرمایا: اول تو ایمان لانے سے تمہاری دنیوی زندگی متاثر نہیں ہو گی۔ ثانیاً اگر متاثر ہو بھی جائے تو یہ چند روزہ فانی زندگی متاثر ہو گی مگر تمہاری ہمیشہ کی ابدی زندگی سنور جائے گی اور ایمان نہ لانے سے ابدی زندگی متاثر ہو گی اور چند روزہ فانی زندگی بحال رہے گی۔

۲۔ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ: کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ چند روز کی زندگی کے لیے ابدی زندگی کو ختم کر رہے ہوجب کہ تمام عقلاء اپنے مستقبل کی آسائش کے لیے بہت مشقت اٹھاتے ہیں۔ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ بڑے مفادات کے لیے چھوٹے مفادات اور لمبی آسائش کے لیے مختصر آسائش کی قربانی دی جائے اور عمر بھر کے آرام کے لیے وقتی درد و الم پر صبر کیا جائے۔

اہم نکات

۱۔ عقل کا تقاضا ہے کہ ایک تابناک مستقبل سنوارنے کے لیے کچھ دن مشقت برداشت کی جائے۔


آیت 60