آیت 46
 

وَ مَا کُنۡتَ بِجَانِبِ الطُّوۡرِ اِذۡ نَادَیۡنَا وَ لٰکِنۡ رَّحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اَتٰىہُمۡ مِّنۡ نَّذِیۡرٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔ اور آپ طور کے کنارے پر موجود نہ تھے جب ہم نے ندا دی تھی بلکہ (آپ کا رسول بنانا) آپ کے رب کی رحمت ہے تاکہ آپ اس قوم کو تنبیہ کریں جن کے ہاں آپ سے پہلے کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں آیا شاید وہ نصیحت حاصل کریں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَا کُنۡتَ بِجَانِبِ الطُّوۡرِ اِذۡ نَادَیۡنَا: جیسے آپ مدین میں مقیم نہ تھے۔ اسی طرح آپ طور کے داہنی جانب بھی موجود نہ تھے۔ جب ہم نے موسی کو ندا دی اور کوہ طور پر بلا کر ان کو شریعت دی۔

۲۔ وَ لٰکِنۡ رَّحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ: لیکن یہ اللہ کی رحمت آپ کے شامل حال رہی اور آپ کو رسالت سے نوازا اور وحی کے ذریعہ آپ طور کے واقعات ایسے بتلا رہے جیسے آپ وہاں موجود تھے۔

۳۔ لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اَتٰىہُمۡ مِّنۡ نَّذِیۡرٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ: رسالت کی رحمت آپؐ کے شامل اس لیے رہی کہ آپ ؐایسی قوم کی تنبیہ کریں جس میں آپؐ سے پہلے ان کو تنبیہ کرنے والا کوئی نہیں آیا۔ ان میں انبیاء مبعوث نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ جاہلیت کی گہرائیوں میں پڑے ہوئے ہیں۔

عربوں میں حضرت ہود، صالح، شعیب اور اسماعیل علیہم السلام کے بعد صدیوں سے کوئی نبی نہیں آیا۔ البتہ دیگر انبیاء علیہم السلام کی دعوتیں ان تک پہنچتی رہیں اور حجت پوری ہوتی رہی۔مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو سورہ سجدہ آیت۳۔

مشرکین مکہ کی معلومات کے مطابق آپؐ ان مقامات پر موجود نہ تھے، ان پر طویل مدت بھی گزر گئی تھی اور مکہ کی ان پڑھ قوم میں ان واقعات کا علم حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں تھا۔ پس اگر یہ قرآن وحی الٰہی نہیں ہے تو کون سا ذریعہ ہو سکتا ہے؟ اگر کوئی ذریعہ موجود ہوتا تو آج کے مستشرقین سے کہیں زیادہ مکہ کے مشرکین کو اس کی ضرورت تھی۔ وہ اسے برملا کر دیتے اور جنگ کرنے کی نوبت نہ آتی۔


آیت 46