آیت 45
 

وَ لٰکِنَّاۤ اَنۡشَاۡنَا قُرُوۡنًا فَتَطَاوَلَ عَلَیۡہِمُ الۡعُمُرُ ۚ وَ مَا کُنۡتَ ثَاوِیًا فِیۡۤ اَہۡلِ مَدۡیَنَ تَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا ۙ وَ لٰکِنَّا کُنَّا مُرۡسِلِیۡنَ﴿۴۵﴾

۴۵۔ لیکن ہم نے کئی امتوں کو پیدا کیا پھر ان پر طویل مدت گزر گئی اور نہ آپ اہل مدین میں سے تھے کہ انہیں ہماری آیات سنا رہے ہوتے لیکن ہم ہی (ان تمام خبروں کے) بھیجنے والے ہیں۔

تشریح کلمات

ثَاوِیًا:

( ث و ی ) الثواء کے اصل معنی کسی جگہ پر مستقل طور پر اقامت کرنا کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لٰکِنَّاۤ اَنۡشَاۡنَا قُرُوۡنًا فَتَطَاوَلَ عَلَیۡہِمُ الۡعُمُرُ: اس آیت میں لٰکن ’’استدراک‘‘ کا سابقہ آیت سے ربط پیدا کرنا بہت زیادہ دشوار ہے۔ ہماری فہم کے مطابق ربط کلام اس طرح ہے: مشرکین کو اس بات پر تعجب تھا کہ ہمارے درمیان اس قسم کا کوئی رسول آیا نہیں:

مَا سَمِعۡنَا بِہٰذَا فِی الۡمِلَّۃِ الۡاٰخِرَۃِ ۔۔۔ (۳۸ ص: ۷)

ہم نے کبھی یہ بات کسی پچھلے مذہب سے بھی نہیں سنی۔۔۔۔

اگلی آیت میں فرمایا:

لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اَتٰىہُمۡ مِّنۡ نَّذِیۡرٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ ۔۔۔۔۔۔۔ (۲۸ قصص: ۴۶)

تاکہ آپ اس قوم کو تنبیہ کریں جن کے ہاں آپ سے پہلے کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں آیا۔

لہٰذا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دعویٰ ہماری روایات کے خلاف ہے۔ اس غلط فہمی کے ازالہ کے لیے فرمایا:

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَہۡلَکۡنَا الۡقُرُوۡنَ ۔۔۔۔۔۔ (۲۸ قصص: ۴۳)

اور بتحقیق ہم نے پہلی امتوں کو ہلاک کرنے کے بعد لوگوں کے لیے بصیرتوں اور ہدایت و رحمت (کا سرچشمہ) بنا کر موسیٰ کو کتاب دی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ایک لمبے وقفے کے بعد مبعوث ہوئے ہیں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ایک لمبے وقفے کے بعد مبعوث برسالت کر رہے ہیں۔

وَ لٰکِنَّاۤ اَنۡشَاۡنَا قُرُوۡنًا فَتَطَاوَلَ عَلَیۡہِمُ الۡعُمُرُ: لیکن ہوا یہ کہ ہم نے کئی امتوں کو پیدا کیا۔ پھر ان پر طویل مدت گزر گئی۔ یعنی اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم آپ کو بھی موسیٰ علیہ السلام کی طرح طویل مدت کے بعد مبعوث کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے بھی ان لوگوں کو آپؐ کی طرف وحی نازل ہونے کی بات کو سمجھنا دشوار ہو رہا ہے۔

۲۔ وَ مَا کُنۡتَ ثَاوِیًا فِیۡۤ اَہۡلِ مَدۡیَنَ: نہ ہی آپؐ اہل مدین میں مقیم تھے کہ آپؐ اپنے مشاہدے کے مطابق ان مشرکوں کو ہماری آیات پڑھ کر سنا رہے ہوں۔ تَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا میں عَلَیۡہِمۡ کی ضمیر مشرکین کی طرف ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ ؐاپنے مشاہدے کی بنا پر مشرکین مکہ کو مدین سے متعلق آیات سنا رہے ہوں۔

۳۔ وَ لٰکِنَّا کُنَّا مُرۡسِلِیۡنَ: لیکن ان خبروں کو بھیجنے والے ہم ہیں۔


آیت 45