آیت 31
 

وَ اَنۡ اَلۡقِ عَصَاکَ ؕ فَلَمَّا رَاٰہَا تَہۡتَزُّ کَاَنَّہَا جَآنٌّ وَّلّٰی مُدۡبِرًا وَّ لَمۡ یُعَقِّبۡ ؕ یٰمُوۡسٰۤی اَقۡبِلۡ وَ لَا تَخَفۡ ۟ اِنَّکَ مِنَ الۡاٰمِنِیۡنَ﴿۳۱﴾

۳۱۔ اور اپنا عصا پھینک دیجئے، پھر جب موسیٰ نے عصا کو سانپ کی طرح حرکت کرتے دیکھا تو پیٹھ پھیر کر پلٹے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا، (ہم نے کہا) اے موسیٰ! آگے آئیے اور خوف نہ کیجیے، یقینا آپ محفوظ ہیں۔

تشریح کلمات

تَہۡتَزُّ:

( ھ ز ز ) ھزّ کے معنی کسی چیز کو زور سے ہلانے کے ہیں۔ تھتز ہلنے کے معنوں میں ہے۔

جَآنٌّ:

( ج ن ن ) ایک قسم کا سانپ۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اَنۡ اَلۡقِ عَصَاکَ: حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ملتا ہے: اپنا عصا پھینک دیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حکم کی تعمیل کی تو دیکھا عصا یکایک سانپ کی طرح حرکت کر رہا ہے۔

۲۔ وَّلّٰی مُدۡبِرًا: یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام پیٹھ پھیر کر پلٹے وَّ لَمۡ یُعَقِّبۡ اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ آخر میں اِنَّکَ مِنَ الۡاٰمِنِیۡنَ کی ضمانت سن کر واپس آ گئے۔

سانپ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خوف بتاتا ہے کہ جو معجزہ اللہ اپنے نبی کو دکھاتا ہے وہ فعل خدا ہی ہوتا ہے لیکن جب موسیٰ علیہ السلام خود عصا پھینکتے اوروہ اژدھا بن جاتا تو خوفزدہ نہیں ہوتے تھے۔

آج یہ بات مسلم ہے کہ تمام موجودات کا ابتدائی خمیر اور عناصر اولیہ ایک ہے۔ ان عناصر کی ترکیب و ترتیب مختلف ہونے سے چیزیں مختلف ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا عصا اور اژدھے کے عناصر ایک ہیں۔ اللہ اپنی قدرت کن فیکونی سے ان عناصر کی ترتیب و ترکیب بدل سکتا ہے اور عصا سے اژدھا اور اژدھے سے عصا بنا سکتا ہے۔ اس سے یہ بات، جو ہم نے پہلے بھی لکھی ہے واضح ہو جاتی ہے کہ معجزہ عام طبیعاتی دفعات کے مطابق نہ سہی لیکن قانون فطرت کے دائرے میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ معجزے کے علل و اسباب عام انسانوں کے لیے قابل تسخیر نہیں ہیں۔


آیت 31