آیات 99 - 101
 

وَ مَاۤ اَضَلَّنَاۤ اِلَّا الۡمُجۡرِمُوۡنَ﴿۹۹﴾

۹۹۔ اور ہمیں تو ان مجرموں نے گمراہ کیا ہے۔

فَمَا لَنَا مِنۡ شَافِعِیۡنَ﴿۱۰۰﴾ۙ

۱۰۰۔ (آج) ہمارے لیے نہ تو کوئی شفاعت کرنے والا ہے،

وَ لَا صَدِیۡقٍ حَمِیۡمٍ﴿۱۰۱﴾

۱۰۱۔ اور نہ کوئی سچا دوست ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قیامت کے دن انہیں معلوم ہو جائے گا کہ انہیں گمراہ کرنے والے مجرم تھے ورنہ دنیا میں ہدایت دینے والوں کو مجرم ٹھہراتے تھے۔

۲۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مؤمنین کی شفاعت ہوتے ہوئے دیکھ کر کہہ اٹھیں گے: فَمَا لَنَا مِنۡ شَافِعِیۡنَ ہمارے لیے شفاعت کرنے والے نہیں ہیں؟ شاید وہ دیکھ رہے ہوں گے دوسروں کے لیے تو بہت سے شفاعت کرنے والے ہیں۔

روایات ہیں:

الشفعآء خمسۃ القرآن والرحم و الامانۃ و نبیکم واہل بیت نبیکم ۔ (بحارالانوار ۸: ۴۳۔ کنز العمال)

شفاعت کرنے والے پانچ ہیں: قرآن، رشتہ دار، امانت، تمہارے نبی اور تمہارے نبی کے اہل بیتؑ۔

۳۔ وَ لَا صَدِیۡقٍ حَمِیۡمٍ: جابر بن عبد اللہ راوی ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: جنت میں کوئی شخص یہ کہے گا: میرے دوست کے ساتھ کیا ہوا ہو گا؟ اس کا دوست جہنم میں ہو گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس کے دوست کو جہنم سے نکالو تو اہل جہنم کہیں گے ہمارا تو کوئی دوست نہیں۔ (مجمع البیان ۷: ۳۰۵)

یہ حدیث اس آیت کے مطابق ہے:

اَلۡاَخِلَّآءُ یَوۡمَئِذٍۭ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿﴾ (۴ زخرف: ۶۷)

اس دن دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:

یہ آیت ہمارے اور ہمارے شیعوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ ہم پر اور ہمارے شیعوں پر فضل و کرم فرمائے گا ہم ان کی شفاعت کریں گے یہ دیکھ کر دوسرے لوگ کہیں گے: فَمَا لَنَا مِنۡ شَافِعِیۡنَ ہمارے لیے شفاعت کرنے والے نہیں ہیں۔ (شواہد التنزیل ۱: ۵۴۶۔ تفسیر ابن ابی حاتم ۸: ۲۷۸۶۔ ملاحظہ ہو فقہ الآل ص ۲۸)


آیات 99 - 101