آیات 72 - 74
 

اَمۡ تَسۡـَٔلُہُمۡ خَرۡجًا فَخَرَاجُ رَبِّکَ خَیۡرٌ ٭ۖ وَّ ہُوَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ﴿۷۲﴾

۷۲۔ یا (کیا) آپ ان سے کوئی خراج مانگتے ہیں؟ (ہرگز نہیں کیونکہ) آپ کے رب کا دیا ہوا سب سے بہتر ہے اور وہی بہترین رازق ہے۔

وَ اِنَّکَ لَتَدۡعُوۡہُمۡ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ﴿۷۳﴾

۷۳۔ اور آپ تو انہیں یقینا صراط مستقیم کی دعوت دیتے ہیں۔

وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنٰکِبُوۡنَ﴿۷۴﴾

۷۴۔ اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے یقینا وہ راستے سے منحرف ہو جاتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ تمام انبیاء کی حقانیت کی ایک دلیل یہ ہے کہ وہ اپنی دعوت میں بے لوث ہوتے ہیں۔ خصوصاً رسالتماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کا بے غرض ہونا تو نہایت واضح ہے کہ اپنی رسالت سے پہلے اچھی خاصی تجارت چل رہی تھی۔ اپنی قوم میں امین اور محترم تھے۔ اب غربت کے علاوہ پورا معاشرہ جانی دشمن ہے۔ اپنی قوم میں امن سے زندگی گزار رہے تھے۔ اب ایسی بات لے کر اٹھے ہیں جو پوری قوم کی سرداری کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔ خود غرض انسان تو اس چیز کو اٹھاتے ہیں جس میں قوم کی ہمدردی اور حمایت نہ ہو۔

۲۔ فَخَرَاجُ رَبِّکَ خَیۡرٌ: ان مسکینوں کے پاس رکھا بھی کیا ہے کہ آپ ان سے کسی قسم کی مادی توقع رکھیں۔ آسمانوں اور زمین کے خزانوں کا مالک آپ کا رب ہے۔

۳۔ وَ اِنَّکَ لَتَدۡعُوۡہُمۡ: بس آپ ان کو راہ راست کی طرف بے غرض ہو کر بلاتے ہیں۔ آپ کی غرض و غایت اور مفاد اگر ہے تو وہ ان کی راہ راست کی طر ف ہدایت میں ہے۔

۴۔ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ: جو لوگ آپ کی دعوت پر ایمان نہیں لاتے وہ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا رہے ہیں۔ وہ خود راہ راست سے منحرف ہو کر اپنے آپ کی کھائی کو طرف لے جا رہے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ راہ راست کی طرف بلانے والوں کو اللہ کی طرف سے انعام و اکرام ملتا ہے، لوگوں سے نہیں۔


آیات 72 - 74