آیت 31
 

حُنَفَآءَ لِلّٰہِ غَیۡرَ مُشۡرِکِیۡنَ بِہٖ ؕ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخۡطَفُہُ الطَّیۡرُ اَوۡ تَہۡوِیۡ بِہِ الرِّیۡحُ فِیۡ مَکَانٍ سَحِیۡقٍ﴿۳۱﴾

۳۱۔ صرف (ایک) اللہ کی طرف یکسو ہو کر، کسی کو اس کا شریک بنائے بغیر اور جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے تو وہ ایسا ہے گویا آسمان سے گر گیا پھر یا تو اسے پرندے اچک لیں یا اسے ہوا اڑا کر کسی دور جگہ پھینک دے۔

تشریح کلمات

حُنَفَآءَ:

( ح ن ف ) حنیف کی جمع۔ یکسوئی کے معنوں میں ہے۔

فَتَخۡطَفُہُ:

( خ ط ف ) الخطف کسی چیز کو سرعت سے اچک لینا۔

سَحِیۡقٍ:

( س ح ق ) السحق ریزہ ریزہ کرنے کے معنوں میں ہے اور دور کر دینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ حُنَفَآءَ لِلّٰہِ غَیۡرَ مُشۡرِکِیۡنَ: بت پرستی اور باطل گفتار سے اجتناب کرو۔ صرف اللہ کی طرف یکسوئی اختیار کرو۔ ایک ہی معبود، ایک ہی رب اختیار کرو۔ اس میں خود انسان کی اپنی قدر و منزلت کا تحفظ ہے۔ اس ذات کی بارگاہ کی طرف یکسوئی اختیار کرنا جو کمال مطلق کی مالک ہے، انسان کے لیے بھی ایک قسم کا کمال ہے۔

۲۔ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ: جب کہ شرک اختیار کرنا خود انسانی مقام و منزلت کی اہانت ہے۔ جس انسان کو اللہ تعالیٰ نے احسن تقویم میں بنایا وہ ایک جامد پتھر کے سامنے جھک جائے۔ جو انسان اس کائنات میں اللہ کا عظیم معجزہ ہے وہ ایک بے شعور چیز کی بندگی کرے۔ یہ ایسا تنزل اور انحطاط ہے جیسے کوئی آسمان سے گر کر زمین بوس ہو جاتا ہے اور اس کا جسم پاش پاش ہو جاتا ہے۔ انسانی شکل و صورت تک برقرار نہیں رہتی اور درندوں کا لقمہ بن جاتا ہے۔

۳۔ اَوۡ تَہۡوِیۡ بِہِ الرِّیۡحُ: یاخس و خاشاک کی طرح بے حیثیت ہو جاتا ہے اور ہوا اسے اڑا کر دور جگہ، کسی کھائی میں پھینک دیتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ تعالیٰ کی طرف یکسوئی سے حدود اللہ کا احترام ہو سکتا ہے۔

۲۔ شرک باللہ خود انسان کی اپنی قدروں کے منافی ہے۔


آیت 31