آیت 69
 

قُلۡنَا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرۡدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ ﴿ۙ۶۹﴾

۶۹۔ ہم نے کہا: اے آگ! ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم کے لیے سلامتی بن جا۔

تفسیر آیات

ہم نے کہا: آتش ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیم کے لیے۔

اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء کو وجود دیا اور ان میں مختلف خاصیتیں ودیعت فرمائیں۔ اس ذات کی قدرت میں ہے کہ ان چیزوں سے ان کی خاصیتیں سلب کر لے۔ آتش کو سوزش دینا اور اس سے اس سوزش کو سلب کرنا آتش کے خالق کے ہاتھ میں ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آتش کے وجود کا خالق اللہ ہو اور اس کی سوزش کا کنٹرول اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں نہ ہو۔

جس ذات کے ایک لفظ کُن سے ایک لامحدود کائنات وجود میں آ سکتی ہے اور اسی کُن سے آتش سرد ہونے کے بارے میں سوال نہیں اُٹھایا جا سکتا:

اَفَرَءَیۡتُمُ النَّارَ الَّتِیۡ تُوۡرُوۡنَ ءَاَنۡتُمۡ اَنۡشَاۡتُمۡ شَجَرَتَہَاۤ اَمۡ نَحۡنُ الۡمُنۡشِـُٔوۡنَ (۵۶ واقعہ: ۷۱۔ ۷۲)

یہ تو بتاؤ کہ جو آگ تم سلگاتے ہو، اس کے درخت کو تم نے پیدا کیا یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں؟

معجزے کے بارے میں ہم نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ معجزے بلا علت و اسباب رونما نہیں ہوتے۔ البتہ جو علت و سبب معجزے کے پیچھے ہوتا ہے وہ ہمارے لیے قابل تسخیر نہیں ہے۔

۲۔ وَّ سَلٰمًا: آگ کے لیے حکم تکوینی ہے کہ نہ صرف ٹھنڈی ہو جا، سامان سلامتی بھی فراہم کر۔ چنانچہ بعض روایت میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: آتش میں جو دن میں نے گزارے، میری زندگی کے آرام ترین دن تھے۔ ( تفسیر قرطبی ذیل آیہ)


آیت 69