آیات 62 - 63
 

قَالُوۡۤا ءَاَنۡتَ فَعَلۡتَ ہٰذَا بِاٰلِہَتِنَا یٰۤـاِبۡرٰہِیۡمُ ﴿ؕ۶۲﴾

۶۲۔ کہا :اے ابراہیم! کیا ہمارے معبودوں کا یہ حال تم نے کیا ہے ؟

قَالَ بَلۡ فَعَلَہٗ ٭ۖ کَبِیۡرُہُمۡ ہٰذَا فَسۡـَٔلُوۡہُمۡ اِنۡ کَانُوۡا یَنۡطِقُوۡنَ﴿۶۳﴾

۶۳۔ ابراہیم نے کہا: بلکہ ان کے اس بڑے (بت )نے ایسا کیا ہے سو ان سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں۔

تفسیر آیات

۱۔ ابراہیم علیہ السلام کو حاضر کیا جاتا ہے۔ روئے زمین پر موجود واحد مؤحد کو دنیائے شرک کی مرکزی سلطنت میں بلایا جاتا ہے۔ پھر سوال کرتے ہیں: اے ابراہیم کیا تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کام کیا؟

بعض روایات کی بنا پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر اس وقت ۱۶ سال تھی۔ (مجمع البیان ذیل آیت)

۲۔ قَالَ بَلۡ فَعَلَہٗ ٭ۖ کَبِیۡرُہُمۡ: ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: اگر یہ بت بول سکتے ہیں تو ان سے پوچھ لو کہ ان میں سے بڑے بت نے یہ کام کیا ہے۔ ترتیب کلام بعض مفسرین کے نزدیک یہ ہے: بل فعلہ کبیرھم ان کانوا ینطقون فسئلوھم ۔

ان بتوں کی بے بسی کو ظاہر اور بت پرستی کو باطل ثابت کرنے کے لیے دلیل کے طور پر ایک مفروضہ سامنے رکھا: ان چھوٹے بتوں کو بڑے بت نے توڑا ہے، اگر یہ بولتے ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جھوٹ نہیں بول رہے تھے بلکہ ایک مفروضہ قائم کر رہے تھے: تمہارے معبود سے اگر کوئی کام بن سکتا ہے تو دوسرے بتوں کو اسی نے توڑا ہے، خود ان سے پوچھ لو اگر یہ بول سکتے ہیں۔ یہ نہ بول سکتے ہیں اور نہ توڑ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نکلا کہ یہ بے بس معبود نہ کچھ بگاڑ سکتے ہیں، نہ کچھ فائدہ دے سکتے ہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مشروط بات کی۔ جیسا کہ فرمایا:

قُلۡ اِنۡ کَانَ لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدٌ ٭ۖ فَاَنَا اَوَّلُ الۡعٰبِدِیۡنَ (۴۳ زخرف: ۸۱)

کہدیجیے: اگر رحمن کی کوئی اولاد ہوتی تو میں سب سے پہلے (اس کی) عبادت کرنے والا ہوتا۔

بت بات نہیں کرسکتے تو توڑ بھی نہیں سکتے۔ جو کسی نفع و ضرر کے قابل نہیں، اس جامد چیز کی پوجا کرتے ہو۔


آیات 62 - 63