آیت 77
 

وَ لَقَدۡ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی ۬ۙ اَنۡ اَسۡرِ بِعِبَادِیۡ فَاضۡرِبۡ لَہُمۡ طَرِیۡقًا فِی الۡبَحۡرِ یَبَسًا ۙ لَّا تَخٰفُ دَرَکًا وَّ لَا تَخۡشٰی﴿۷۷﴾

۷۷۔ اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں کو لے کر رات کے وقت چل پڑیں پھر ان کے لیے سمندر میں خشک راستہ بنا دیں، آپ کو (فرعون کی طرف سے) نہ پکڑے جانے کا خطرہ ہو گا اور نہ ہی (غرق کا) خوف ۔

تشریح کلمات

یَبَسًا:

( ی ب س ) یبس خشک ہو جانے کے معنوں میں ہے۔ یبَس بفتح باء پانی ہو پھر خشک ہو جائے۔

درک ( د ر ک ) العین میں آیا ہے: الحق من التبعۃ ۔ پیروی کرنے پر ملحق ہونے کو کہتے ہیں۔ لسان العرب میں آیا ہے: الدرک اللحاق الدرک کے معنی ملحق ہونے کے ہیں۔

تفسیر آیات

ساحروں کے واقعہ کے بعد سے لے کر مصر سے خروج کے وقت تک کے اہم واقعات سورۃ الاعراف میں بیان ہوئے ہیں۔

بنی اسرائیل اور واقعہ سحر کے بعد ایمان لانے والوں کو فرعون کے ظلم و بربریت سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ ایک مقررہ رات کو مصر سے نکل پڑیں۔

عبادی : اسرائیلی و غیراسرائیلی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے تھے۔

فَاضۡرِبۡ لَہُمۡ طَرِیۡقًا فِی الۡبَحۡرِ یَبَسًا: اس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو البقرۃ آیت ۵۰۔


آیت 77