آیات 73 - 76
 

اِنَّـاۤ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغۡفِرَ لَنَا خَطٰیٰنَا وَ مَاۤ اَکۡرَہۡتَنَا عَلَیۡہِ مِنَ السِّحۡرِ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی﴿۷۳﴾

۷۳۔ ہم اپنے رب پر ایمان لائے ہیں تاکہ وہ ہمارے گناہوں کو معاف کر دے اور جس جادوگری پر تم نے ہمیں مجبور کیا تھا اسے بھی معاف کر دے اور اللہ سب سے بہتر اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔

اِنَّہٗ مَنۡ یَّاۡتِ رَبَّہٗ مُجۡرِمًا فَاِنَّ لَہٗ جَہَنَّمَ ؕ لَا یَمُوۡتُ فِیۡہَا وَ لَا یَحۡیٰی﴿۷۴﴾

۷۴۔ بے شک جو مجرم بن کر اپنے رب کے پاس آئے گا اس کے لیے یقینا جہنم ہے جس میں وہ نہ مرے گا اور نہ جیے گا۔

وَ مَنۡ یَّاۡتِہٖ مُؤۡمِنًا قَدۡ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ فَاُولٰٓئِکَ لَہُمُ الدَّرَجٰتُ الۡعُلٰی ﴿ۙ۷۵﴾

۷۵۔ اور جو مومن بن کر اس کے پاس حاضر ہو گا جب کہ وہ نیک اعمال بھی بجا لا چکا ہو تو ایسے لوگوں کے لیے بلند درجات ہیں۔

جَنّٰتُ عَدۡنٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا مَنۡ تَزَکّٰی﴿٪۷۶﴾

۷۶۔دائمی باغات جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی پاکیزہ رہنے والے کی جزا ہے۔

تفسیر آیات

ایمان و یقین کی منزل پر فائز ہونے کے بعد جن الٰہی قدروں کا ان ساحروں نے اعلان کیا ہے وہ نہایت قابل توجہ ہیں۔

۱۔ ایمان کے دائرے میں داخل ہونے پر گزشتہ کفر کی حالت کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں: اِنَّـاۤ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغۡفِرَ لَنَا خَطٰیٰنَا ۔۔۔۔

۲۔ فرعون نے ان ساحروں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے کے لیے مجبور کیا تھا۔ ممکن ہے یہ جبر اس وقت عمل میں آیا ہو جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا موعظہ سننے کے بعد فرعونیوں میں اختلاف ہو گیا تھا: وَ مَاۤ اَکۡرَہۡتَنَا عَلَیۡہِ مِنَ السِّحۡرِ ۔۔۔۔

۳۔ یقین کی منزل پر فائز ہونے پر یہ بات ان کے لیے واضح ہو گئی کہ فرعون کے مقابلے میں جو اللہ کے پاس ہے وہ ابدی اور دائمی ہے: وَ اللّٰہُ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی ۔

۴۔ جو مجرم بن کر اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچے گا اسے زندگی کی لذت ملے گی نہ موت کی راحت۔

۵۔ ایمان کے ساتھ عمل صالح ہو تو نجات ہے: مُؤۡمِنًا قَدۡ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ ۔۔۔۔

۶۔ جنت عدن کی زندگی دائمی اور ابدی ہے: خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ۔۔۔۔

اہم نکات

۱۔ ایمان و یقین کی منزل پر آنے کے بعد حقائق کے وسیع صفحات کھل جاتے ہیں۔


آیات 73 - 76