آیات 53 - 54
 

الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ مَہۡدًا وَّ سَلَکَ لَکُمۡ فِیۡہَا سُبُلًا وَّ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ؕ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡ نَّبَاتٍ شَتّٰی﴿۵۳﴾

۵۳۔ جس نے تمہارے لیے زمین کو گہوارہ بنایا اور اس میں تمہارے لیے راستے بنائے اور آسمانوں سے پانی برسایا پھر اس سے ہم نے مختلف نباتات کے جوڑے اگائے۔

کُلُوۡا وَ ارۡعَوۡا اَنۡعَامَکُمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّہٰی﴿٪۵۴﴾

۵۴۔ تم بھی کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چراؤ، صاحبان علم کے لیے اس میں یقینا بہت سی نشانیاں ہیں۔

تفسیر آیات

عالم تخلیق و تدبیر میں ربوبیت کی جو تعریف کی گئی اس کی تفصیل ہے۔ اس میں ایک اہم نکتے کی وضاحت بھی ملتی ہے کہ کائنات کی تدبیر اس کی تخلیق سے جدا نہیں ہو سکتی بلکہ تدبیر کا مسئلہ تخلیق سے مربوط اور منسلک ہے۔

الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ مَہۡدًا: ایسا نہیں کہ اللہ نے زمین بنائی اور کسی اور نے آ کر اس کو گہوارہ بنا دیا تاکہ یہاں زندگی پنپ سکے۔

چنانچہ زمین اللہ کی طرف سے ودیعت شدہ ہدایت پر عمل پیرا ہے اور زندگی کے لیے نامساعد فضا میں ایک مہمان نواز سیارہ ہے۔ صرف مہمان نواز ہی نہیں بلکہ یہ زمین انسانی ارتقا کے لیے ایسی ہے جیسے بچے کے لیے گہوارہ، جس میں ایک ناتواں بچے کے لیے زندگی کے تمام وسائل فراہم ہیں۔

وَّ سَلَکَ لَکُمۡ فِیۡہَا سُبُلًا: اگر یہ راستے نہ ہوتے تو سربفلک پہاڑوں سے بہنے والے پانی سے میدانوں کی آبادکاری ممکن نہ ہوتی اور راستہ نہ ہونے کی وجہ سے زمین پر بسنے والے باہم مربوط نہ ہوتے۔

وَّ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً: اسی ہدایت تکوینی کے تحت سمندروں کے بخارات آسمان کی طرف اٹھتے ہیں، بادل بنتے ہیں۔ یہ بادل پانی لے کر دور و دراز علاقوں میں پانی برساتے ہیں۔ اسی ہدایت تکوینی کے تحت زمین اپنا سینہ چاک کرتی ہے اور یہاں بسنے والوں کی ضرورت کی تمام اشیاء اگاتی ہے۔

کُلُوۡا وَ ارۡعَوۡا اَنۡعَامَکُمۡ: جس سے انسان کے لیے غذا اور جانوروں کے لیے چارہ فراہم ہوتا ہے۔

لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّہٰی: عقل و خرد رکھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ انسانی بقا و ارتقاء کے لیے یہ چیزیں خالق نے فطرت میں ودیعت فرمائی ہیں لہٰذا اس کائنات کا مدبر وہی ہے جس نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے۔

اہم نکات

۱۔ ہمارا رب وہ ہے جس نے تخلیق کے ساتھ سامان زیست فراہم کیا ہے۔


آیات 53 - 54