آیات 47 - 48
 

فَاۡتِیٰہُ فَقُوۡلَاۤ اِنَّا رَسُوۡلَا رَبِّکَ فَاَرۡسِلۡ مَعَنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ۙ وَ لَا تُعَذِّبۡہُمۡ ؕ قَدۡ جِئۡنٰکَ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ السَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الۡہُدٰی﴿۴۷﴾

۴۷۔ دونوں اس کے پاس جائیں اور کہیں: ہم دونوں تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں پس بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے اور ان پر سختیاں نہ کر، بلاشبہ ہم تیرے رب کی طرف سے نشانی لے کر تیرے پاس آئے ہیں اور سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔

اِنَّا قَدۡ اُوۡحِیَ اِلَیۡنَاۤ اَنَّ الۡعَذَابَ عَلٰی مَنۡ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی﴿۴۸﴾

۴۸۔ ہماری طرف یقینا وحی کی گئی ہے کہ عذاب اس شخص کے لیے معین ہے جو تکذیب کرے اور منہ موڑے۔

تفسیر آیات

حمایت اور نصرت کی یقین دہانی کے بعد فرعون کے پاس جانے کا دوبارہ حکم ہوا۔ یہ حکم حضرت موسیٰ کے مصر پہنچنے اور حضرت ہارون علیہما السلام سے ملنے کے بعد ملا ہو گا۔

رَسُوۡلَا رَبِّکَ: اس میں بات کی صراحت موجود ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام شریک رسالت تھے۔

فَاَرۡسِلۡ مَعَنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ: فرعون بنی اسرائیل سے بیگار میں کام لیتا تھا اور مصری معاشرے میں بنی اسرائیل نسلی تعصب کا شکار رہتے تھے۔ اس لیے بنی اسرائیل کو اس ذلت آمیز زندگی سے نکالنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ذمہ داری بن گئی۔

قَدۡ جِئۡنٰکَ بِاٰیَۃٍ: اپنی صداقت پر دلیل اور معجزہ بھی لے کر آیا ہوں۔

وَ السَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الۡہُدٰی: تمام ادیان کی دعوت کا آخری نتیجہ امن و سلامتی ہے، ان لوگوں کے لیے جو اس دعوت پر لبیک کہتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ لوگوں کو اس دنیا میں عزت کی زندگی دینا انبیاء علیہم السلام کی ذمہ داری ہے: فَاَرۡسِلۡ مَعَنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۔۔۔

۲۔ دنیا و آخرت کا امن و سلامتی انبیاء علیہم السلام کی ہدایت پر چلنے میں ہے۔

۳۔آپ اگر کسی پر سلام کرنا نہیں چاہتے تو یہ جملہ وَ السَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الۡہُدٰی استعمال کریں۔ جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام اپنے ان خطوط میں یہی آیت لکھتے جہاں وہ مخاطب کو سلام کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اس آیت کے معنی یہ ہیں: سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرتا ہے۔


آیات 47 - 48