آیت 93
 

وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمۡ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لٰکِنۡ یُّضِلُّ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ لَتُسۡـَٔلُنَّ عَمَّا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۹۳﴾

۹۳۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اس کے بارے میں تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔

تفسیر آیات

عہد شکنی، مکر و فریب و دیگر ناجائز ذرائع سے اپنے مذہب کا پرچار کرنے والوں سے خطاب ہے:

۱۔ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمۡ: اگر دوسرے مذاہب کو طاقت کے ذریعے مٹا کر لوگوں کو ایک ہی مذہب پر لانا مقصود ہوتا تو یہ کام اللہ کے لیے نہایت آسان تھا۔ بقول تفہیم القرآن اللہ کو اپنے نام نہاد طرفداروں اور ان کے ذلیل ہتھکنڈوں سے مدد لینے کی کوئی حاجت نہ تھی۔

۲۔ وَّ لٰکِنۡ یُّضِلُّ مَنۡ یَّشَآءُ: بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لیے ایک ایسا غیر جبری نظام قائم فرمایا ہے جس کے تحت کچھ لوگ اپنے اختیار سے ضلالت کی طرف جاتے ہیں تو اللہ طاقت کے ذریعے نہیں روکتا، انہیں جانے دیتا ہے۔ اسی مطلب کو اللہ یُّضِلُّ مَنۡ یَّشَآءُ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے، کی تعبیر سے بیان فرماتا ہے۔

واضح رہے کہ ناجائز ذرائع سے حق کا پرچار کرنا خود اپنی جگہ حق کی پامالی ہے۔ جب عہد شکنی اور مکر و فریب، بہتان تراشی جیسی باطل اور غیر انسانی قدروں کا ارتکاب کیا جاتا ہے تو حق کس اقدار کا نام ہے جسے یہ نادان زندہ کرنا چاہتے ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام پر بیت المال کی مساویانہ تقسیم پر اعتراض کیا گیا تو آپ ؑنے فرمایا:

أَتَأمُرُونِّی اَنْ اَطْلُبَ النَّصْرَ بِالْجَورِ ۔ (نہج البلاغۃ خطبہ۱۲۶)

کیا تم مجھے ظلم و جور کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے کی دعوت دیتے ہو؟

۳۔ وَ لَتُسۡـَٔلُنَّ عَمَّا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ: اپنی جماعت کی بالادستی کے لیے جو عہد شکنی اور فریب کاری تم نے انجام دی ہے اس کے بارے میں کل قیامت کے دن تم سے سوال ہو گا اور اس جرم کا سامنا کرنا ہو گا۔

اہم نکات

۱۔ باطل کو اللہ نے خود مختار رکھا ہے۔ اس لیے لوگ حق و باطل میں بٹ جاتے ہیں۔


آیت 93