آیت 91
 

وَ اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِ اللّٰہِ اِذَا عٰہَدۡتُّمۡ وَ لَا تَنۡقُضُوا الۡاَیۡمَانَ بَعۡدَ تَوۡکِیۡدِہَا وَ قَدۡ جَعَلۡتُمُ اللّٰہَ عَلَیۡکُمۡ کَفِیۡلًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا تَفۡعَلُوۡنَ﴿۹۱﴾

۹۱۔ اور جب تم عہد کرو تو اللہ سے عہد کو پورا کرو اور قسموں کو پختہ کرنے کے بعد نہ توڑو جب کہ تم اللہ کو اپنا ضامن بنا چکے ہو، جو کچھ تم کرتے ہو یقینا اللہ اسے جانتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِ اللّٰہِ: جب انسان کوئی عمل خیر انجام دینے یا ایک جائز کام چھوڑنے کے لیے اللہ کے ساتھ عہد باندھتا ہے تو اس پر عمل کرنا واجب اور ترک کرنا موجب کفارہ ہے۔

۲۔ وَ لَا تَنۡقُضُوا الۡاَیۡمَانَ: اسی طرح کوئی عمل انجام دینے یا ترک کرنے کی قسم کھائے تو اس قسم کا توڑنا حرام اور موجب کفارہ ہے۔ تفصیل فقہی کتابوں میں موجود ہے۔

۳۔ بَعۡدَ تَوۡکِیۡدِہَا: قسم پختہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قسم اگر سنجیدہ ہو تو اس کا توڑنا قابل مؤاخذہ ہے اور بے مقصد قسموں کا مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ جیسے بلا ارادہ یا تکیہ کلام کے طور پر واللّٰہ، باللّٰہ کہتے ہیں۔ جیسے فرمایا:

لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغۡوِ فِیۡۤ اَیۡمَانِکُمۡ وَ لٰکِنۡ یُّؤَاخِذُکُمۡ بِمَا عَقَّدۡتُّمُ الۡاَیۡمَانَ ۔۔۔ (۵ مائدۃ ۸۹)

اللہ تمہاری بے مقصد قسموں پر تمہارا مواخذہ نہیں کرے گا لیکن جو سنجیدہ قسمیں تم کھاتے ہو ان کا مواخذہ ہو گا۔

اس آیت میں بَعْدَ تَوْكِيْدِہَا اسی معنی میں ہے جو بِمَا عَقَّدۡتُّمُ الۡاَیۡمَانَ کے ہیں۔

۴۔ قَدۡ جَعَلۡتُمُ اللّٰہَ: جب انسان اللہ کے ساتھ قسم کھاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے: میں اللہ کو کفیل اور ضامن بناتا ہوں کہ یہ کام کروں گا یا چھوڑ دوں گا۔ جب وہ اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی ہے جس کا کفارہ دینا ہوتا ہے۔ اسی لیے احادیث میں آیا ہے کہ قسمیں زیادہ نہ کھایا کرو۔

اس آیت سے یہ نظریہ صحیح ثابت نہیں ہوتا کہ مکی سورتوں میں آیات احکام نازل نہیں ہوئیں۔

اہم نکات

۱۔ قسم توڑنا اللہ کی شان میں گستاخی ہے۔


آیت 91