آیات 68 - 69
 

وَ اَوۡحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحۡلِ اَنِ اتَّخِذِیۡ مِنَ الۡجِبَالِ بُیُوۡتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعۡرِشُوۡنَ ﴿ۙ۶۸﴾

۶۸۔ اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی پر وحی کی کہ پہاڑوں اور درختوں اور لوگ جو عمارتیں بناتے ہیں ان میں گھر (چھتے) بنائے۔

ثُمَّ کُلِیۡ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسۡلُکِیۡ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلًا ؕ یَخۡرُجُ مِنۡۢ بُطُوۡنِہَا شَرَابٌ مُّخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہٗ فِیۡہِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ﴿۶۹﴾

۶۹۔ پھر ہر (قسم کے) پھل (کا رس) چوس لے اور اپنے رب کی طرف سے تسخیر کردہ راہوں پر چلتی جائے، ان مکھیوں کے شکم سے مختلف رنگوں کا مشروب نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے، غور و فکر کرنے والوں کے لیے اس میں ایک نشانی ہے۔

تفسیر آیات

زندہ موجودات میں بالعموم اور انسان میں بالخصوص عقل و شعور کے ماوراء ایک شعور اور اس خود آگاہ ضمیر کے پیچھے ایک ضمیر اور بھی ہے جسے ہم الہام، وجدان، ضمیر، القاء، اشراق، فراست اور غریزہ کا نام دیتے ہیں جو کم و بیش ہر انسان میں موجود ہوتا ہے اور اسے ایسی معلومات فراہم کرتا ہے جو عقل و حواس کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔

جدید ماہرین نفسیات بھی اس چیز سے آگاہ ہو گئے ہیں۔ اسے ’’غیر شعوری من‘‘ کا نام دیا ہے اور کہتے ہیں:

کبھی انسان اپنے ’’ من ‘‘ سے نکل کر اس ’’غیر شعوری من‘‘ میں قدم رکھتا ہے تو اس پر وہ باتیں کھل جاتی ہیں جو ظاہری عقل و ادراک کے لیے ناقابل فہم ہیں۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طبیعی انسان کے ماوراء ایک اور انسان ہے جس کا ذریعہ ادراک، الہام و اشراق ہے جیسا کہ اس طبیعی انسان کا ذریعہ ادراک عقل و حواس ہیں۔

مناسب ہے کہ اس کی مزید کچھ وضاحت ہو: انسان جب کوئی ایسا عمل انجام دیتا ہے جو اپنی طبیعت کے خلاف اور وجدان و ضمیر کے تقاضوں کے مطابق ہو، مثلاً ہوس رانی کی بری عادت ترک کر دیتا ہے تو اس کو ایسا احساس فتح ہوتا ہے جیسا کہ کسی دشمن کے مقابلے میں فتح مل گئی ہو۔ جب انسان اپنے وجدان و ضمیر کے خلاف اور طبعی انسان کی ہوسرانی کے مطابق کام کرتا ہے تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ کسی دشمن مبین کے مقابلے میں شکست کھائی ہو۔

اسی طرح جب انسان ایک نیک عمل انجام دیتا ہے تو ضمیر اس کو شاباش دیتا ہے اور ظاہری انسان و باطنی انسان، انسان اور اپنے ضمیر میں ہم آہنگی ہوتی ہے۔ اس طرح انسان میں ایک پرسکون فضا قائم ہو جاتی اور دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔ جب انسان اپنے ضمیر کے خلاف کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس مجرم کو ضمیر کی عدالت سے فوراً قرار واقعی سزا مل جاتی ہے۔ چنانچہ جس پائلٹ نے ہیر و شیما پر ایٹمی بم گرایا تھا آخر میں اسے پاگل خانے میں داخل کر دیا گیا تھا۔

حیوانات میں ، جسے باطنی شعور کہتے ہیں، زیادہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے انسان عقل اور رشد فکری میں برتر ہے جب کہ حیوانات میں عقل اور رشد فکری کی جگہ غریزہ اور حس باطنی ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ کیا ان حیوانات کی جسمانی ساخت و بافت ان کی رہنمائی کے لیے کافی ہے؟ یہ باتیں ان کی فطرت اور جبلت میں ودیعت ہیں؟ یا کوئی پراسرار طاقت ان کی رہنمائی کرتی ہے؟ بعض اہل نظر کا نظریہ یہ ہے کہ ایک پراسرار طاقت ان کی رہنمائی کرتی ہے۔ اس پر دلیل کے طور پر سیلز (Cells) کے تخلیقی کارناموں کو پیش کرتے ہیں کہ ان میں تقسیم کار اور ذمے داری کے انتخاب کا شعور حیرت انگیز ہے کہ سیلوں کا انبوہ کس طرح منقسم اور تقسیم کار کا کاربند ہوتا ہے۔ کوئی دماغ بنانے لگتا ہے، کوئی ہڈی، کوئی اعصاب، جب کہ ان سب کی اصل ایک ہے۔ ذمے داری کے انتخاب کا عمل اور زیادہ حیرت انگیز ہے کہ ان سیلوں کو علم ہے کہ ہم نے بچے کو ماموں یا چچا، کس کی شکل میں بنانا ہے۔ جس کا بھی انتخاب ہو گا، ان کو اس کا علم ہے۔ مثلاً ماموں کی ناک کیسی ہے، منہ اور آنکھیں کتنی بڑی ہیں۔ اسی کے مطابق تصویر سازی کرتے ہیں۔

آیت کا ظاہری مفہوم بھی یہی ہے کہ یہ تعلیم و رہنمائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ اس پراسرار رہنمائی کو وحی سے تعبیر فرماتا ہے۔ جیسا کہ آیت میں ہے: وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوۡسٰۤی اَنۡ اَرۡضِعِیۡہِ ۔۔۔۔ (۲۸ قصص: ۷۔ اور ہم نے مادر موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ انہیں دودھ پلائیں۔) اور کبھی اسے الہام سے تعبیر فرمایا ہے: فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪﴿﴾ ۔ (۹۱ شمس: ۸۔پھر اس نفس کو اس کی بدکاری اور اس سے بچنے کی سمجھ دی۔)

البتہ اصطلاح میں وحی انبیاء علیہم السلام کے ساتھ مخصوص ہے اور الہام خاص بندوں کے ساتھ۔ وحی کا سلسلہ بند ہو گیا ہے اور الہام کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ الہام ایک اشراقی عمل ہے جس کا تعلق باطنی شعور سے ہے۔

الہام ماہر نفسیات کے دائرہ تجربہ میں آ سکتا ہے جب کہ

وحی تجربے میں نہیں آتی۔

الہام تحت الشعور میں ہوتا ہے۔

وحی شعور میں ہوتی ہے۔

الہام کا مصدر باطنی ہے۔

وحی کا مصدر خارجی ہے۔

الہام کشف معنوی ہے۔

وحی مشاہداتی حقیقت ہے۔ کیونکہ وحی میں کلام و صوت کے ذریعے مطالب اخذ ہوتے ہیں۔ جب کہ الہام اشراقی لہروں کے ذریعے ذہن کے تصورات میں آنے والے بغیر حروف و اصوات کے مطالب ہیں۔

آگے اس وحی کا مضمون بیان ہوتا ہے:

۱۔ اَنِ اتَّخِذِیۡ مِنَ الۡجِبَالِ بُیُوۡتًا: تو گھر بنا لے پہاڑوں میں۔ ان مکھیوں کا گھر (چھتا) معماری کا ایک حیرت انگیز شاہکار ہے۔ مسدس شکل کے ان چھتوں کی دقیق پیمانوں میں پیمائش کی جائے تو ان میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں رہتا۔ مسدس شکل اس لیے اختیار کی گئی ہے کہ ان کا کوئی کونہ بیکار نہیں رہتا۔

۲۔ ثُمَّ کُلِیۡ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ: پھر ہر قسم کے پھلوں کا رس چوس۔ شہد کی مکھیاں پھولوں کی جڑوں میں موجود شکر کا خاص مادہ بلکہ پھلوں کے ابتدائی مراحل کا جوہر چوستی ہیں۔ تعجب یہ ہے کہ اس چوسنے سے نہ صرف پھل پر منفی اثر نہیں پڑتا بلکہ پھلدار پودوں کی بارداری، پھلوں کی پرورش میں بھی اس قدر مفید ہے کہ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر شہد کی مکھیاں ختم ہو جائیں تو لاتعداد پھل اور پھول نابود ہو جائیں۔

۳۔ فَاسۡلُکِیۡ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلًا: اور اپنے رب کی طرف سے تسخیر کردہ، راہوں پر چلتی جا۔ ایک نہایت تمدنی نظم و نسق کے لیے اس مخلوق کی راہیں ہموار کی گئی ہیں۔ یہ ان کے پروردگار کی طرف سے ہے۔ چنانچہ مکھیوں کا نظام درج ذیل دستوں پر مشتمل ہے جو ایک ملکہ کی زیر سلطنت کام کرتے ہیں۔

i۔ دربان۔ یہ دستہ غیر متعلقہ فرد کو چھتے کے اندر آنے نہیں دیتا ہے۔ اگر کوئی مکھی گندگی پر بیٹھ گئی ہے تو دربان اسے چھتے کے باہر روک لیتے ہیں اور ملکہ اس کو قتل کر دیتی ہے۔ قدرت نے مکھیوں کو آنے والے مواد کا تجزیہ کرنے کی ایسی صلاحیت دی رکھی ہے کہ انسان بڑی بڑی لیبارٹریوں میں کر سکے۔

ii۔ ایک دستہ انڈوں کی حفاظت پر مامور ہوتا ہے۔

iii۔ بچوں کی تربیت کے لیے ایک دستہ متعین ہے۔

iv۔ ایک نہایت ماہر دستہ معماری پر متعین ہے جو مسدس کی شکل میں چھتے بناتا ہے۔

v۔ ایک دستے کی ذمہ داری یہ ہے کہ نباتات پر جمے ہوئے سفوف سے موم حاصل کرکے معماروں کو پہنچا دے تاکہ چھتوں کی تعمیر میں استعمال کریں۔

vi۔ پھلوں، پھولوں سے رس چوسنے والا دستہ جو شہد بنانے پر مامور ہے۔ ان کا آپس میں ایسا مواصلاتی نظام قائم ہے جس کی مدد سے ہزاروں مکھیاں نہایت خوش اسلوبی سے اپنے اپنے فرائض انجام دیتی ہیں۔

غذا کی تلاش میں نکلنے والی مکھی کو غذا کا ذخیرہ کہیں نظر آتا ہے تو چھتے میں واپس آتی ہے اور ایک خاص قسم کے رقص کے ذریعے دائرہ بناتی ہے اور اس دائرے کو مخصوص زاویے سے کاٹتی ہے جس سے دوسری مکھیوں کو پتہ چلتا ہے کہ غذا کس سمت اور کتنے فاصلہ پر موجود ہے۔ یہ مکھیاں خوشبو کو دو میل دور سے سونگھ سکتی ہیں۔ انسانی آنکھوں میں صرف دو عدسے ہوتے ہیں لیکن شہد کی مکھی کی ہر آنکھ میں چھ ہزار عدسے ہوتے ہیں جن کی مدد سے وہ بے شمار زاویوں سے اور باریک سے باریک جراثیم اور گرد و غبار بھی دیکھ سکتی ہے۔ یہ ہیں وہ راہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان مکھیوں کے لیے تسخیر فرمایا ہے۔

۴۔ فِیۡہِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ: شہد کے شفا بخش ہونے کے سلسلے ماہرین نے بہت سے قابل توجہ خواص بیان کیے ہیں۔

۵۔ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ: شہد کی مکھی میں یہ سوجھ بوجھ اس کی جسمانی ساخت و بافت کے ماوراء موجود ہے۔ یہاں قرآن فکر کی دعوت دیتا ہے کہ اگر شہد کی مکھی کی خلقت دفعتاً اور اتفاقی طور پر ہوئی ہوتی، تخلیق میں تدبیر نہ ہوتی تو مشین کی طرح خلقت پر بات ختم ہو جاتی اور خلقت کے ماوراء کچھ نہ ہوتا۔ لہٰذا خلقت کے پیچھے اس حیرت انگیز شعور کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس مکھی کو ایک شعور اور ارادے نے پیدا کیا اور اسی نے اسے شعور دیا جس سے اس کی زندگی کی تدبیر ہوتی ہے اور اس کی مہارت سے شہد جیسی شفا بخش چیز وجود میں آتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ شہد کی مکھی انسان کی خدمت کے لیے کام کرتی ہے: فِیۡہِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ ۔۔۔۔

۲۔ شہد کی مکھی میں موجود شعور، خالق شعور کی آیت ہے: لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ۔


آیات 68 - 69