آیت 26
 

اَللّٰہُ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ ؕ وَ فَرِحُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ﴿٪۲۶﴾

۲۶۔ اللہ جس کی چاہے روزی بڑھاتا ہے اور گھٹاتا ہے اور لوگ دنیاوی زندگی پر خوش ہیں جب کہ دنیاوی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک ( عارضی) سامان ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَللّٰہُ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ: آج کی طرح زمان مکہ میں بھی عام لوگوں کے ذہن میں بات تھی کہ اللہ جس کو عزت دینی چاہتا ہے، اسے فراوان رزق دیتا ہے اور جس کو خوار کرنا چاہتا ہے اس کو غریب کرتا ہے۔ انہی قدروں کے مطابق وہ قریش کے مالداروں اور مسلمان فقیروں میں امتیاز کے قائل تھے۔ جس کے جواب میں ارشاد فرمایا: رزق میں فراوانی اور تنگی اللہ کی مشیت کے مطابق ہے۔ وہ کبھی کسی کو رزق کی فراوانی کے ذریعے سزا دیتا ہے اور کبھی روزی میں تنگی کے ذریعے اجر و فضلیت میں اضافہ فرماتا ہے۔ معیار فضیلت دنیاوی مال و متاع نہیں ہے۔

۲۔ وَ فَرِحُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا: یہ کفار ہیں جو مادی قدروں کو جانتے ہیں۔ یہ لوگ انسانی اور الٰہی قدروں سے ناآشنا ہیں۔ اس لیے وہ دنیا کی دولت پر خوش رہتے ہیں اور انہیں آخرت کی فکر نہیں ہوتی حالانکہ اس دنیا کی قیمت آخرت کی ابدی زندگی کے مقابلے میں ایک عارضی سامان سے زیادہ نہیں ہے۔

واضح رہے مشیت الٰہی، علل و اسباب کے دائرے میں کارفرما ہوتی ہے۔ لہٰذا رزق کی فراوانی کے لیے اللہ اسباب فراہم فرماتا ہے اور رزق میں تنگی مشیت میں ہو تو اس کے لیے اسباب فراہم نہیں ہوتے۔

اہم نکات

۱۔ رزق میں فراوانی و تنگی مشیت الٰہی کے مطابق ہے: اَللّٰہُ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ ۔۔۔۔

۲۔ غیر مؤمن دنیاوی قدروں پر نازاں ہوتا ہے: وَ فَرِحُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۔۔۔۔


آیت 26