آیات 79 - 80
 

قَالُوۡا لَقَدۡ عَلِمۡتَ مَا لَنَا فِیۡ بَنٰتِکَ مِنۡ حَقٍّ ۚ وَ اِنَّکَ لَتَعۡلَمُ مَا نُرِیۡدُ﴿۷۹﴾

۷۹۔ وہ بولے: تمہیں خوب علم ہے ہمیں تمہاری بیٹیوں سے کوئی غرض نہیں ہے اور یقینا تمہیں معلوم ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔

قَالَ لَوۡ اَنَّ لِیۡ بِکُمۡ قُوَّۃً اَوۡ اٰوِیۡۤ اِلٰی رُکۡنٍ شَدِیۡدٍ﴿۸۰﴾

۸۰۔ لوط نے کہا: اے کاش! مجھ میں (تمہیں روکنے کی) طاقت ہوتی یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لے سکتا۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالُوۡا لَقَدۡ عَلِمۡتَ مَا لَنَا: وہ حضرت لوط علیہ السلام ہی کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں : یہ مسئلہ تو خود آپ کے علم میں ہے کہ آپ کی بیٹیوں پر ہمارا کوئی حق نہیں ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں علامہ طباطبائیؒ فرماتے ہیں:

ان کے قومی رواج کے مطابق لوگوں کی عورتوں پر بزور بازو قبضہ کرنا درست نہیں تھا مگر لڑکوں سے اپنی ہوس پوری کرنے میں کوئی حرج نہ تھا۔ (المیزان ۹: ۳۴۰)

اور ممکن ہے ان کی ساری رغبت اس گندگی کی طرف ہو گئی ہو اور فطری راہوں کی طرف وہ سرے سے راغب نہ ہوتے ہوں۔

حضرت لوط علیہ السلام نے اس عار و ننگ سے بچنے کے تمام ذرائع استعمال کیے۔ وعظ و نصیحت تو شروع میں کرتے رہے، فطری راہوں سے خواہشات پوری کرنے کی تجویز بھی سامنے رکھ دی اور قوم کے کسی ہوشمند آدمی کی بھی تلاش کی جو ان کی مدد کو پہنچے۔ جب ان سب چیزوں سے مایوس ہوئے تو اس تمنا کا اظہار فرمایا کہ کاش کوئی قوم و قبیلہ ہوتا جو میرا دفاع کرتا یا کوئی جائے پناہ ہوتی اس کا سہارا لیتا۔ اس وقت فرشتوں نے انہیں بتایا گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہم آپ کے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ عزت و آبرو کے دفاع کے لیے طاقت اور سہارا تلاش کرنا چاہیے: لَوۡ اَنَّ لِیۡ بِکُمۡ قُوَّۃً اَوۡ اٰوِیۡۤ ۔۔۔


آیات 79 - 80