آیت 78
 

وَ جَآءَہٗ قَوۡمُہٗ یُہۡرَعُوۡنَ اِلَیۡہِ ؕ وَ مِنۡ قَبۡلُ کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ السَّیِّاٰتِ ؕ قَالَ یٰقَوۡمِ ہٰۤؤُلَآءِ بَنَاتِیۡ ہُنَّ اَطۡہَرُ لَکُمۡ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ لَا تُخۡزُوۡنِ فِیۡ ضَیۡفِیۡ ؕ اَلَـیۡسَ مِنۡکُمۡ رَجُلٌ رَّشِیۡدٌ﴿۷۸﴾

۷۸۔ اور لوط کی قوم بے تحاشا دوڑتی ہوئی ان کی طرف آئی اور یہ لوگ پہلے سے بدکاری کا ارتکاب کرتے تھے، لوط نے کہا: اے میری قوم!یہ میری بیٹیاں تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ ہیں پس تم اللہ کا خوف کرو اور میرے مہمانوں کے سامنے مجھے رسوا نہ کرو، کیا تم میں کوئی ہوشمند آدمی نہیں ہے؟

تشریح کلمات

یُہۡرَعُوۡنَ:

( ھ ر ع ) ھرع و اھرع کے معنی سختی اور تخویف سے ہانکنے اور چلانے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ جَآءَہٗ قَوۡمُہٗ یُہۡرَعُوۡنَ اِلَیۡہِ: لوط علیہ السلام کی بدکار قوم ان خوش شکل لڑکوں کو دیکھ کر لوط علیہ السلام کے گھر کی طرف دوڑی۔ اس سے اس قوم کی بے حیائی کی انتہا کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس عمل بد کو برا ہی نہیں سمجھتے تھے۔ شاید فرشتے بھی خوبصورت لڑکوں کی شکل میں اسی غرض سے آئے ہوں کہ ان کی بے حیائی اور بدکاری ثبت ہو جائے۔

۲۔ ہٰۤؤُلَآءِ بَنَاتِیۡ ہُنَّ اَطۡہَرُ لَکُمۡ: حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا: میری بیٹیاں تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ ہیں۔ پاکیزگی کی تعبیر سے تو صاف ظاہر ہے کہ نکاح مراد ہے اور ایک پیغمبر کی طرف سے نکاح ہی کی طرف دعوت ہو سکتی ہے۔ رہا بیٹیوں کا سوال کہ خود حضرت لوط علیہ السلام کی بیٹیاں تھیں تو کافروں کے ساتھ نکاح کیسے ہو سکتا تھا؟ جواب دیا گیا ہے کہ شریعت لوط علیہ السلام میں ایسا کرنا جائز تھا۔ جیسا کہ ابتدائے اسلام میں بھی جائز تھا اور اگر ان بیٹیوں سے مراد قوم کی بیٹیاں ہیں تو کوئی اعتراض نہیں آتا۔ حضرت لوط علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ تم نے اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرنا ہے تو اس کے لیے شائستہ اور فطری راستہ اختیار کرو۔

اہم نکات

۱۔ ہم جنس بازی انسانی رشد و کمال کے منافی ہے: لَـیۡسَ مِنۡکُمۡ رَجُلٌ رَّشِیۡدٌ ۔۔۔۔

۲۔ تمام ادیان جنسی خواہشات کو فطری اور جائز طریقوں سے پورا کرنے کی اجازت دیتے ہیں: ہُنَّ اَطۡہَرُ لَکُمۡ ۔۔۔۔

۳۔ مہمان کی عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے حضرت لوط علیہ السلام نے ایک مثالی قربانی پیش فرمائی۔


آیت 78