آیات 74 - 76
 

فَلَمَّا ذَہَبَ عَنۡ اِبۡرٰہِیۡمَ الرَّوۡعُ وَ جَآءَتۡہُ الۡبُشۡرٰی یُجَادِلُنَا فِیۡ قَوۡمِ لُوۡطٍ ﴿ؕ۷۴﴾

۷۴۔پھر جب ابراہیم کے دل سے خوف نکل گیا اور انہیں خوشخبری بھی مل گئی تو وہ قوم لوط کے بارے میں ہم سے بحث کرنے لگے۔

اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ لَحَلِیۡمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیۡبٌ﴿۷۵﴾

۷۵۔ بے شک ابراہیم بردبار، نرم دل، اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔

یٰۤـاِبۡرٰہِیۡمُ اَعۡرِضۡ عَنۡ ہٰذَا ۚ اِنَّہٗ قَدۡ جَآءَ اَمۡرُ رَبِّکَ ۚ وَ اِنَّہُمۡ اٰتِیۡہِمۡ عَذَابٌ غَیۡرُ مَرۡدُوۡدٍ﴿۷۶﴾

۷۶۔ (فرشتوں نے ان سے کہا) اے ابراہیم! اس بات کو چھوڑ دیں، بیشک آپ کے رب کا فیصلہ آ چکا ہے اور ان پر ایک ایسا عذاب آنے والا ہے جسے ٹالا نہیں جا سکتا۔

تشریح کلمات

اَوَّاہٌ:

( ا و ہ ) یہ لفظ ہر اس شخص پر بولا جاتا ہے جو حزن و غم ظاہر کرنے کے لیے اوّہْ کرتا ہے اور جو مشیت الٰہی کا بہت زیادہ اظہار کرنے والے کو اَوَّاہٌ کہتے ہیں۔ مُّنِیۡبٌ رجوع کرنے والا۔

تفسیر آیات

۱۔ فَلَمَّا ذَہَبَ عَنۡ اِبۡرٰہِیۡمَ: قوم لوط سے عذاب کو ٹالنے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اصرار و تکرار ایک طرف تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اللہ کے ساتھ گہری محبت اور ناز کو ظاہر کرتا ہے۔

۲۔ اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ لَحَلِیۡمٌ: دوسری طرف حضرت علیہ السلام کی نرم دلی اور ان کے حلم و بردباری کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے جس کا اعلان خود خالق کی زبان سے ہو رہا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام قوم لوط پر عذاب الٰہی نازل ہونے کے حق میں نہ تھے اور اس عذاب کو ٹالنے کی ابراہیم علیہ السلام بار بار تکرار کرتے تھے۔ اس کے لیے لفظ مجادلت، یُجَادِلُنَا استعمال فرمایا جو بہت زیادہ بحث کرنے کے معنوں میں ہے۔

۳۔ یٰۤـاِبۡرٰہِیۡمُ اَعۡرِضۡ عَنۡ ہٰذَا: بعد میں جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتایا کہ فیصلہ حتمی ہے اور قوم لوط ناقابل ہدایت ہو چکی ہے اور ان میں کوئی خوبی اور رحم کی کسی قسم کی قابلیت نہیں رہی ہے تو خاموش ہو گئے۔

اہم نکات

۱۔ جب اللہ کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے تو اولوالعزم انبیاء کی دعا بھی قبول نہیں ہوتی: اَعۡرِضۡ عَنۡ ہٰذَا ۔۔۔۔


آیات 74 - 76