آیت 74
 

ثُمَّ بَعَثۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ رُسُلًا اِلٰی قَوۡمِہِمۡ فَجَآءُوۡہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَمَا کَانُوۡا لِیُؤۡمِنُوۡا بِمَا کَذَّبُوۡا بِہٖ مِنۡ قَبۡلُ ؕ کَذٰلِکَ نَطۡبَعُ عَلٰی قُلُوۡبِ الۡمُعۡتَدِیۡنَ﴿۷۴﴾

۷۴۔ پھر نوح کے بعد ہم نے بہت سے پیغمبروں کو اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا پس وہ ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے مگر وہ جس چیز کی پہلے تکذیب کر چکے تھے اس پر ایمان لانے والے نہ تھے، اس طرح ہم حد سے تجاوز کرنے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام تک کے انبیاء کا ذکر ہے۔ ان تمام انبیاء کے ساتھ ان کی قوموں نے ایک ہی روش اختیار کی۔ انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی قوم کو حق کی دعوت دیتے اور اللہ کا نمائندہ ہونے کا اعلان کرتے تھے۔ اس اعلان کو ہر قوم نے مسترد کر دیا، اللہ کے نمائندہ ہونے کی تکذیب کی اور ساتھ اس کے ثبوت کے لیے معجزہ بھی طلب کیا جس پر انبیاء علیہم السلام نے واضح اور روشن دلائل اور معجزات بھی پیش کیے مگر وہ اپنی سابقہ تکذیب پر اڑے رہے۔ آیات و بینات کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ بِمَا کَذَّبُوۡا بِہٖ مِنۡ قَبۡلُ معجزہ پیش کرنے سے قبل اور معجزہ پیش کرنے کے بعد میں کوئی فرق نہیں پڑا اور انبیاء علیہم السلام کی طرف سے پیش کردہ معجزات کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔

۲۔ کَذٰلِکَ نَطۡبَعُ: اللہ کسی دل پر ابتداءً مہر نہیں لگاتا۔ اللہ کی طرف سے مہر کا مطلب یہ ہے کہ جب مجرم اپنا جرم جاری رکھتا اور اللہ کی ہدایت کو مسترد کرتا ہے تو دو حال سے خالی نہیں ہے۔ یا تو اس پر ہدایت کو جبراً تھوپ دے یا اس کو اپنے حال پر چھوڑ دے۔ اللہ جبر نہیں کرتا بلکہ اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ جب سرچشمۂ ہدایت اللہ نے اس سے ہاتھ اٹھا لیا تو اس کو کہیں اور سے ہدایت ملنا نہیں ہے۔ اس طرح اس پر ہدایت کا راستہ بند ہو جاتا ہے۔ یہی مہر لگنا ہے۔

اہم نکات

۱۔ حدود اللہ سے تجاوز کرنے سے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے: نَطۡبَعُ عَلٰی قُلُوۡبِ الۡمُعۡتَدِیۡنَ ۔


آیت 74