آیت 71
 

وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ نُوۡحٍ ۘ اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ اِنۡ کَانَ کَبُرَ عَلَیۡکُمۡ مَّقَامِیۡ وَ تَذۡکِیۡرِیۡ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَعَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلۡتُ فَاَجۡمِعُوۡۤا اَمۡرَکُمۡ وَ شُرَکَآءَکُمۡ ثُمَّ لَا یَکُنۡ اَمۡرُکُمۡ عَلَیۡکُمۡ غُمَّۃً ثُمَّ اقۡضُوۡۤا اِلَیَّ وَ لَا تُنۡظِرُوۡنِ﴿۷۱﴾

۷۱۔ انہیں نوح کا قصہ سنا دیجئے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! اگر میرا تمہارے درمیان رہنا اور اللہ کی آیات سنا کر تمہیں نصیحت کرنا تمہیں ناگوار گزرتا ہے تو میرا بھروسہ اللہ پر ہے پس تم اپنے شریکوں کے ساتھ مل کر مضبوطی سے اپنا فیصلہ کر لو پھر اس فیصلے کا کوئی پہلو تم پر پوشیدہ نہ رہے پھر میرے ساتھ جو کچھ کرنا ہے کر گزرو اور مجھے مہلت بھی نہ دو۔

تشریح کلمات

اجمعوا:

( ج م ع ) فراء کہتے ہیں : الا جماع العزم علی الامر و الاحکام علیہ ۔ یعنی اجماع کے معنی کسی امر کے پختہ اور مضبوط کرنے کے ہیں۔(تاج العروس) اسی طرح ابن عرہ نے کہا: اجمعو ای اعزموا علیہ ۔ (تاج العروس) صدر اسلام میں اجماع سے لغوی معنی مراد لیے جاتے تھے۔ یعنی پختہ عزم کرنا۔ اجمعوا وہ اس وقت کو کہتے تھے جب کسی معاملے میں استحکام پیدا کیا جائے اور اس میں انتشار و تردد نہ آنے دیا جائے۔

غُمَّۃً:

( غ م م ) غمۃ الامر کے معنی کسی معاملے کا پیچیدہ اور مشتبہ ہونا ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ: تاریخ انبیاء کا وہ حصہ بیان ہو رہا ہے جس میں انبیاء علیہم السلام اسی قسم کے حالات سے دو چار رہے جن سے رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں دو چار تھے۔ تکذیب کرنے والوں کی کثرت و قوت ایمان لانے والوں کی قلت وکمزوری۔ منطق و استدلال کے مقابلے میں خرافات۔ ایسے نامساعد حالات میں حضرت نوح نے اپنی قوم کو جس لہجے، انداز میں چیلنج اور جس استقامت اور توکل کا اظہار کیا ہے وہ اس قسم کے حالات سے دو چار ہونے والے حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے باعث تسلی و اطمینان ہے۔

۲۔ اِنۡ کَانَ کَبُرَ عَلَیۡکُمۡ: حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: اگر میرا تمہارے درمیان موجود رہنا اور نصیحت کرنا تمہارے لیے ناقابل برداشت ہے تو ادھر میں اپنے اللہ پر بھروسہ کر کے تمہارے مقابلے کے لیے کھڑا ہوں ، تم اپنی پوری طاقت میرے خلاف استعمال کرو اور میرے مقابلے کے لیے اپنے شریکوں کو بھی بلاؤ۔ تم سوچ سمجھ کر میرے خلاف فیصلہ کرو۔ اس فیصلے کا کوئی حصہ تم پر پوشیدہ نہ ہو۔ ہر پہلو کا جائزہ لو پھر مجھ پر حملہ کرو۔

۳۔ وَ لَا تُنۡظِرُوۡنِ: فرمایا: فیصلہ کرنے کے فوراً بعد مجھ پر حملہ کرو۔ مجھے مہلت بھی نہ دو کہ میں اپنے دفاع کے لیے کچھ کر سکوں۔ یہ ایسا بھرپور چیلنج ہے کہ قوم جو کچھ کر سکتی ہے میرے خلاف کر ڈالے۔ اس چیلنج میں پوری قوم کے مقابلے میں ایک عظیم طاقت کا اظہار ہے۔ وہ طاقت توکل علی اللّٰہ ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ پر توکل کی طاقت کے مقابلے میں تمام دنیا کی طاقتیں ہیچ ہیں : فَعَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلۡتُ فَاَجۡمِعُوۡۤا اَمۡرَکُمۡ ۔۔۔۔


آیت 71