آیت 61
 

وَ مِنۡہُمُ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہُوَ اُذُنٌ ؕ قُلۡ اُذُنُ خَیۡرٍ لَّکُمۡ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ یُؤۡمِنُ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ رَحۡمَۃٌ لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ؕ وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۶۱﴾

۶۱۔ اور ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نبی کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ کانوں کے کچے ہیں، کہدیجئے:وہ تمہاری بہتری کے لیے کان دے کر سنتا ہے اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور مومنوں کے لیے تصدیق کرتا ہے اور تم میں سے جو ایمان لائے ہیں ان کے لیے رحمت ہیں اور جو لوگ اللہ کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

تشریح کلمات

اُذُنٌ:

اذن کے معنی کان کے ہیں اور استعارہ کے طور پر ہر اس شخص پر اُذُنُ بولا جاتا ہے جو ہر ایک کی بات سن کر اسے مان لیتا ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مِنۡہُمُ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ النَّبِیَّ: رسولؐ کے اخلاق کریمانہ میں ایک بات یہ تھی کہ آپؐ ہر ایک کی بات پوری توجہ سے سن لیتے تھے۔ منافق جو صرف ظاہری صورت پر نظر رکھتے تھے، یہ خیال کرتے تھے کہ ہر ایک بات مان لیتے ہیں اور یہ بات سربراہان کے لیے عیب ہے کہ وہ اچھی اور بری باتوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ہر ایک کی بات مان لیتے ہیں۔

دوسری بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اہل ایمان چونکہ ان منافقوں کی ہر ناشائستہ بات اور حرکت کو رسول اللہؐ تک پہنچاتے تھے، اس سے منافقین اپنے عیوب پر پردہ ڈالنے کے لیے حضورؐ پر عیب لگاتے تھے کہ آپؐ کان کے کچے ہیں ، ہمارے خلاف ہر بات پر یقین کرلیتے ہیں۔

۲۔ قُلۡ اُذُنُ خَیۡرٍ لَّکُمۡ: یعنی وہ مانتے اس بات کو ہیں جس میں اہل ایمان کی بہتری ہے کہ ہر ایک کی بات توجہ سے سن کر کسی کا راز فاش نہیں کرتے۔ ہر ایک کو اپنی بات کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ اس طرح امت کے لیے کلام و بیان کی آزادی ہے۔ کسی پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

۳۔ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ: رہا بات ماننے او ر اچھی اور بری باتوں میں تمیز کا مسئلہ تو رسول اللہؐ اس سلسلے میں ایک تو اپنے اللہ کو مانتے ہیں ، اللہ کی طرف سے جو وحی نازل ہوتی ہے اس کی تصدیق کرتے ہیں اور اس کی اتباع کرتے ہیں۔

۴۔ وَ یُؤۡمِنُ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ: دوسرے وہ ان مؤمنین کی باتوں پر یقین کرتے ہیں جو جانی اور مالی قربانیوں کے ذریعے اپنی سچائی کا ثبوت پیش کر چکے ہیں۔

۵۔ وَ رَحۡمَۃٌ لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا: اور یہ رسولؐ تم میں سے جو سچے ایمان والے ہیں ان کے لیے رحمت خاص ہے۔ رسولؐ اگرچہ عالمین کے لیے رحمت ہیں ، باین معنی پورے عالمین کے لیے رحمت کا ذریعہ بن کر آئے ہیں تاہم اس رحمت سے بھرپور فائدہ اٹھانے والے وہ لوگ ہیں جو خالص الایمان ہیں۔

ایذاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اس آیت کے آخر میں اسی مناسبت سے ایک عمومی حکم بیان فرمایا: وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۔ جو لوگ اللہ کے رسولؐ کو اذیت دیتے ہیں ، ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ یعنی جو لوگ سچے دل سے ایمان لاتے ہیں ، ان کے لیے رسولؐ رحمت ہیں اور جو لوگ رسولؐ کو اذیت دیتے ہیں ، وہ ایمان کے مقابلے میں ہیں۔ اس لیے ان کے لیے وہ چیز ہے جو رحمت کے مقابلے میں ہے یعنی عذاب۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رسولؐ کو ایذا دینا کفر ہے خواہ اصطلاحاً وہ کافر نہ بھی کہلائے۔ کیونکہ یہاں وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ، لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ کے مقابلے میں آیا ہے اور ایمان کے مقابلے میں کفر ہی ہوتا ہے۔ یہ امر بھی تسلیم شدہ ہے کہ رسولؐ کی زندگی کے بعد ان کو اذیت دینا بالکل اسی طرح ہے جیسا کہ زندگی میں اذیت دی ہے۔

لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات کے بعد حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیہا و دیگر آل رسولؐ کو اذیت دینا حدیث صحیح کے مطابق رسولؐ کو اذیت دینا ہے۔ صحیح مسلم کتاب فضل الصحابۃ باب فضائل فاطمۃ، صحیح ترمذی باب ماجاء فی فضل فاطمۃ میں آیا ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:

انما فاطمہ بضعۃ منی یؤذینی مایوذیہا ۔

فاطمہ میرا ٹکڑا ہے۔ جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی۔

رسولؐ کی ایذا، جسے بعض مفسرین (المنار ۱۰: ۵۲۱) خفیف ایذا کہتے ہیں، سے اعمال حبط ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ (۴۹ حجرات: ۲)

اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اونچی نہ کرو اور نبی کے ساتھ اونچی آواز سے بات نہ کرو۔ جس طرح تم آپس میں اونچی آواز سے بات کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال حبط ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

جس طرح کفر سے ایمان لانے کی صورت میں ایمان، کفر کے گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتا ہے اور کفر کے دنوں کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ایمان سے کفر اختیار کرنے یا ایمان کے منافی (جیسے ایذائے رسولؐ) کوئی کام انجام دینے کی صورت میں اعمال حبط ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ سورہ محمد آیت ۲۸ میں فرمایا:

ذٰلِکَ بِاَنَّہُمُ اتَّبَعُوۡا مَاۤ اَسۡخَطَ اللّٰہَ وَ کَرِہُوۡا رِضۡوَانَہٗ فَاَحۡبَطَ اَعۡمَالَہُمۡ

یہ اس لیے کہ انہوں نے اس بات کی پیروی کی جو اللہ کو ناراض کرتی ہے اور اللہ کی خوشنودی سے بیزاری اختیار کرتے ہیں لہٰذا اللہ نے ان کے اعمال حبط کر دیے۔

اہل ایمان سے خطاب ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ لَا تُبۡطِلُوۡۤا اَعۡمَالَکُمۡ (۴۷ محمد: ۳۳)

اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلانے پر کھانے کو ترجیح دینے والے کو یہ بد دعا ملی: لا اشبع اللہ بطنہ ۔ ( سنن ابی داود کتاب الجہاد۔ باب من قال انہ یاکل مماسقط ) اللہ اس کے شکم کو سیر نہ کرے۔

جب کہ رسول اللہؐ نے ابو رافع غفاری کو لڑکپن کی عمر میں دعا دی۔ اللّٰہم اشبع بطنہ ۔ ( صحیح مسلم باب من لعنہ النبی۔ ) اے اللہ! اس کا شکم سیر فرما۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکم عدولی سے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں اور رسولؐ کی آواز سے اپنی آواز اونچی کرنے سے اعمال حبط ہو جاتے ہیں تو وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے خالی ہاتھ ہر نیکی سے عاری ہو کر پہنچ جائے گا۔ اس سے زیادہ بد نصیبی کیا ہو سکتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ اہل ایمان پر حضورؐ کی شفقت و مہربانی کمال درجہ کی تھی: وَ رَحۡمَۃٌ لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۔۔۔۔

۲۔ مؤمنین کی شہادت مقبول ہے: وَ یُؤۡمِنُ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۔۔۔۔

۳۔ رسول کی ایذا سے ایمان کی نفی ہوتی ہے: وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۔


آیت 61