آیت 149
 

وَ لَمَّا سُقِطَ فِیۡۤ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ رَاَوۡا اَنَّہُمۡ قَدۡ ضَلُّوۡا ۙ قَالُوۡا لَئِنۡ لَّمۡ یَرۡحَمۡنَا رَبُّنَا وَ یَغۡفِرۡ لَنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ﴿۱۴۹﴾

۱۴۹۔اور جب وہ سخت نادم ہوئے اور دیکھ لیا کہ گمراہ ہو گئے ہیں تو کہنے لگے: اگر ہمارا رب ہم پر رحم نہ کرے اور ہمیں معاف نہ فرمائے تو ہم حتمی طور پر خسارے میں رہ جائیں گے۔

تشریح کلمات

سُقِطَ فِیۡۤ اَیۡدِیۡہِمۡ:

نتہائی ندامت کی طرف اشارہ ہے۔ یہ محاورہ ندامت کے لیے اس لیے استعمال ہوتا ہے کہ ندامت کرنے والا منہ سے اپنا ہاتھ کاٹنے لگتا ہے تو اصل میں سقط فوہ فی یدہ ہے کہ اس کا منہ ہاتھ پر گرا اور منہ کا لفظ ذکر نہیں کرتے اور کہتے ہیں: ہاتھ پر گرا ہوا یا یہ محاورہ اس لیے ہو سکتا ہے کہ نادم اپنا ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھتا ہے۔ اس طرح اس کا سر ہاتھ پر گرتا ہے۔ یہ جملہ اس وقت کہا جاتا ہے کہ جب انسان نادم ہو جاتا ہے اور پوشیدہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔

تفسیر آیات

بنی اسرائیل کی سرکشی اور گمراہی کا یہ عالم حضرت موسیٰ (ع) کی صرف دس دنوں کی تاخیر کی وجہ سے تھا۔ صرف دس دن کی غیبت میں یہ قوم گمراہ ہو گئی۔ جب کہ حجت خدا حضرت ہارونؑ ان کے درمیان موجود تھے۔ اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ و حضرت ہارون علیہما السلام کی وفات کے بعد ان کی گمراہی و سرکشی کا کیا عالم ہو گا۔ چنانچہ چشم جہاں نے بنی اسرائیل کی سرکشی، اپنے دین سے بغاوت اور تحریف دیکھ لی۔

وَ رَاَوۡا اَنَّہُمۡ قَدۡ ضَلُّوۡا: بنی اسرائیل وہ واحد قوم ہے جس کو اپنے رسول کی زندگی میں مابعد الرسول کی آزمائش میں ڈالا گیا تاکہ وہ اس تجربے کی روشنی میں اپنے رسول کے بعد پھر مرتد نہ ہو۔

اہم نکات

۱۔ حجت خدا حضرت موسیٰ (ع) کے آنے پر بنی اسرائیل کی اکثریت پر اپنی گمراہی کا انکشاف ہوا: وَ رَاَوۡا اَنَّہُمۡ قَدۡ ضَلُّوۡا ۔۔۔۔

۲۔ گمراہی کے بعد بھی اگر قوم حجت خدا کی اطاعت پر مجتمع ہوجائے تو اللہ ان سے درگزر فرماتا ہے: لَئِنۡ لَّمۡ یَرۡحَمۡنَا رَبُّنَا وَ یَغۡفِرۡ لَنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ۔


آیت 149