آیت 147
 

وَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ لِقَآءِ الۡاٰخِرَۃِ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ ؕ ہَلۡ یُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۴۷﴾٪

۱۴۷۔ اور جنہوں نے ہماری آیات اور آخرت کی پیشی کی تکذیب کی ان کے اعمال ضائع ہو گئے، کیا ان لوگوں کو اس کے سوا کوئی بدلہ مل سکتا ہے جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں؟

تشریح کلمات

حَبِطَتۡ:

( ح ب ط ) الحبط ۔ کسی کام کا اکارت اور ضائع ہو جانا۔ اصل میں لفظ حَبَطَ سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں جانور اتنا زیادہ کھا جائے کہ اس کا پیٹ اپھر جائے۔ یعنی وہ نفخ بطن سے مر جائے۔ کھانے کا مقصد تو زندہ رہنے کے لیے ہے، جب یہ کھانا زندگی کے ختم کرنے کا سبب بنتا ہے تو حَبَطَ کہتے ہیں۔ اسی سے و ہ اعمال جو انسان کو مطلوبہ نتیجہ نہ دیں حبط کہلاتے ہیں۔

تفسیر آیات

اعمال کے حبط ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اعمال خود اپنی جگہ حسن رکھتے ہیں جن کا کوئی صلہ ہونا چاہیے تھا مگر عمل کنندہ کی وجہ سے وہ اکارت اور ضائع ہو گئے۔ دوسرے لفظوں میں یہ عمل حسن فعلی رکھتا ہے لیکن حسن فاعلی نہیں رکھتا۔ اس طرح یہ عمل تو نیک تھا مگر عمل کنندہ نیک نہیں تھا۔ چنانچہ کوئی مجرم نیک عمل بجا لائے، مثلاً ایک چور غریبوں کی مدد کرے تو خود عمل کی خوبی اس کو فائدہ نہیں دے گی۔

آیات الٰہی اور آخرت کا منکر اپنے خالق کا منکر اور نافرمان ہے۔ جن اعضاء و اوزار اور عقل و خرد سے یہ نیک کام کر رہا ہے، وہ ان کو عطا کنندہ کی عطا نہیں سمجھتا۔ وہ شخص درحقیقت چور اور مجرم ہے۔ اس کے اعمال ضائع ہونا ایک لازمی امر ہے۔

ہَلۡ یُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ: جزا عمل پر مرتب ہوتی ہے۔ جیسا عمل ویسی جزا۔

اہم نکات

۱۔ عمل کا نیک ہونا کافی نہیں ہے۔ عمل کنندہ کا بھی نیک ہونا ضروری ہے۔

۲۔ ہر عمل کی قدر وقیمت اس بات سے لگائی جاتی ہے کہ عمل کنندہ کن قدروں کا مالک ہے: یُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ۔


آیت 147