آیات 135 - 136
 

فَلَمَّا کَشَفۡنَا عَنۡہُمُ الرِّجۡزَ اِلٰۤی اَجَلٍ ہُمۡ بٰلِغُوۡہُ اِذَا ہُمۡ یَنۡکُثُوۡنَ﴿۱۳۵﴾

۱۳۵۔پھر جب ہم ایک مقررہ مدت کے لیے جس کو وہ پہنچنے والے تھے عذاب کو دور کر دیتے تو وہ عہد کو توڑ ڈالتے۔

فَانۡتَقَمۡنَا مِنۡہُمۡ فَاَغۡرَقۡنٰہُمۡ فِی الۡیَمِّ بِاَنَّہُمۡ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ کَانُوۡا عَنۡہَا غٰفِلِیۡنَ﴿۱۳۶﴾

۱۳۶۔تب ہم نے ان سے انتقام لیا پھر انہیں دریا میں غرق کر دیا کیونکہ انہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی اور وہ ان سے لاپرواہی برتتے تھے۔

تشریح کلمات

یَنۡکُثُوۡنَ:

( ن ک ث ) النکث کے معنی کمبل یاسوت ادھیڑنے کے ہیں اور قریب قریب نقضٌ کے ہم معنی ہے۔ بطور استعارہ عہد شکنی کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

نقم:

( ن ق م ) کسی چیز کو برا سمجھنا۔ یہ کبھی زبان کے ساتھ عیب لگانے اور کبھی عقوبت (سزا دینے) پر بولا جاتا ہے ۔

انتقمنا:

ہم نے بدلہ لیا۔

الۡیَمِّ:

( ی م م )دریا، سمندر ۔

تفسیر آیات

۱۔ فَلَمَّا کَشَفۡنَا عَنۡہُمُ الرِّجۡزَ اِلٰۤی اَجَلٍ: یعنی ایک مدت تک ہم ان سے عذاب ٹالتے رہے۔ جب وہ مدت ختم ہوئی تو ہم نے ان کو غرق آب کر دیا یا اِلٰۤی اَجَلٍ کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ہر مرتبہ عذاب ٹلنے کے بعد ایک مدت ان کو مہلت دی جاتی تھی۔ اس میں وہ عہد شکنی کرتے تو دوبارہ عذاب آ جاتا۔ چونکہ عذاب متعدد آتے رہے ہیں۔

۲۔ فَانۡتَقَمۡنَا مِنۡہُمۡ: جب یہ اَجَلٍ اور مدت ختم ہو گئی تو ہم نے ان کو غرق آب کر دیا اور اس کی وجۂ انتقام ایک تو تکذیب معجزات اور دوسری ان معجزوں کی حقانیت سے غفلت برتنا ہے۔ جیسا کہ آج بھی ہمارا معاشرہ اسلامی انسان ساز تعلیمات سے نہایت غفلت کا شکار ہے۔

فرعون کے غرق ہونے کے سلسلے میں تفصیل ملاحظہ ہو سورہ بقرہ آیت ۵۰۔


آیات 135 - 136