آیات 63 - 64
 

قُلۡ مَنۡ یُّنَجِّیۡکُمۡ مِّنۡ ظُلُمٰتِ الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ تَدۡعُوۡنَہٗ تَضَرُّعًا وَّ خُفۡیَۃً ۚ لَئِنۡ اَنۡجٰىنَا مِنۡ ہٰذِہٖ لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیۡنَ﴿۶۳﴾

۶۳۔ کہدیجئے: کون ہے جو تمہیں صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں نجات دیتا ہے؟ جس سے تم گڑگڑا کر اور چپکے چپکے التجا کرتے ہو کہ اگر اس (بلا) سے ہمیں بچا لیا تو ہم شکر گزاروں میں سے ہوں گے۔

قُلِ اللّٰہُ یُنَجِّیۡکُمۡ مِّنۡہَا وَ مِنۡ کُلِّ کَرۡبٍ ثُمَّ اَنۡتُمۡ تُشۡرِکُوۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔کہدیجئے: تمہیں اس سے اور ہر مصیبت سے اللہ ہی نجات دیتا ہے پھر بھی تم شرک کرتے ہو۔

تشریح کلمات

کَرۡبٍ:

( ک ر ب ) کے معنی سخت غم کے ہیں۔ بقول راغب یہ اصل میں کرب الارض سے مشتق ہے، جس کے معنی زمین میں قلبہ رانی کے ہیں اور غم سے بھی چونکہ طبیعت الٹ پلٹ جاتی ہے، اسی لیے اسے کَرۡبٍ کہا جاتا ہے۔

تفسیر آیات

انسان سخت مصیبت و شدید اضطراب کی حالت میں سارے مادی و دنیوی سہاروں سے مایوس ہو جاتا ہے تو انسان کے وجود میں جو وجدانی اور ضمیری انسان ہے، اس کے سامنے سے ساری رکاوٹیں ہٹ جاتی ہیں اور وہ اپنی فطرت کے عین مطابق اپنے خالق حقیقی ہی کی بارگاہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اللہ کے ساتھ عہد کرتا ہے کہ آئندہ زندگی شکر گزاروں کی طرح گزاروں گا۔

لیکن وہ مادی دنیاوی عوامل دوبارہ اس کے اور اس کے وجدان و فطرت کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں۔ پھر مشرکانہ حرکتیں شروع کر دیتا ہے۔ اس آیت میں ایسے مشرکوں کی تنبیہ ہے۔

اہم نکات

۱۔ انسان کے اندر ایک پاک انسان ہے۔ اوپر کا انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے اس کا گلا دبا دیتا ہے۔

۲۔ شدید اضطراب کی حالت میں اوپر کا درندہ ہٹ جاتا ہے توا س انسان کو موقع ملتا ہے: تَدۡعُوۡنَہٗ تَضَرُّعًا ۔۔۔

۳۔ بعد میں اوپر والا انسان پھر غالب آتا ہے۔ یہ بہت بدبختی ہو گی: ثُمَّ اَنۡتُمۡ تُشۡرِکُوۡنَ ۔

۴۔ ہر شخص کو یہ محاسبہ کرنا چاہیے کہ یہ دونوں انسان ہم آہنگ ہیں یا جنگ کی حالت میں ہیں۔ اگر ہم آہنگ ہیں تو سکون حاصل ہو گا۔ جنگ ہے تو داخلی بے سکونی و پریشانی ہو گی۔


آیات 63 - 64