آیات 61 - 62
 

وَ ہُوَ الۡقَاہِرُ فَوۡقَ عِبَادِہٖ وَ یُرۡسِلُ عَلَیۡکُمۡ حَفَظَۃً ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ تَوَفَّتۡہُ رُسُلُنَا وَ ہُمۡ لَا یُفَرِّطُوۡنَ﴿۶۱﴾

۶۱۔ اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم پر نگہبانی کرنے والے بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی ایک کو موت آ جائے تو ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اس کی روح قبض کر لیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔

ثُمَّ رُدُّوۡۤا اِلَی اللّٰہِ مَوۡلٰىہُمُ الۡحَقِّ ؕ اَلَا لَہُ الۡحُکۡمُ ۟ وَ ہُوَ اَسۡرَعُ الۡحٰسِبِیۡنَ﴿۶۲﴾

۶۲۔پھر وہ اپنے مالک حقیقی اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے، آگاہ رہو فیصلہ کرنے کا حق صرف اسی کو حاصل ہے اور وہ نہایت سرعت سے حساب لینے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ ہُوَ الۡقَاہِرُ: اس جملے کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو اسی سورت کی آیت ۱۸ ، جس میں فرمایا کہ اللہ اپنی قہاریت و غلبہ کی بنا پر انسانوں کی نگہبانی کے لیے فرشتے بھیجتا ہے۔

۲۔ وَ یُرۡسِلُ عَلَیۡکُمۡ حَفَظَۃً: یہ فرشتے کس چیز کی حفاظت کرتے ہیں؟ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اعمال کی کتابت و حفاظت کرتے ہیں۔ جب کہ دوسری جگہ فرمایا:

وَ اِنَّ عَلَیۡکُمۡ لَحٰفِظِیۡنَ کِرَامًا کَاتِبِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ مَا تَفۡعَلُوۡنَ (۸۲ انفطار ۱۰ تا ۱۲)

اور یقینا تم پر نگران مقرر ہیں۔ ایسے معزز لکھنے والے، جو تمہارے اعمال کو جانتے ہیں۔

جب کہ بعض مفسرین فرماتے ہیں: یہ فرشتے انسانوں کی مقررہ اجل تک ان کی جان کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اس کے ساتھ موت کا ذکر اس مطلب پر قرینہ قرار دیتے ہیں۔

میرے نزدیک آیت کے اطلاق میں دونوں مفہوم کا شامل ہونا ممکن ہے۔ اعمال کی محافظت اور جان کی بھی محافظت۔ موت کا ذکر جان کی حفاظت کا قرینہ نہیں بن سکتا، کیونکہ اعمال بھی موت سے منقطع ہوتے ہیں۔ لہٰذا جیسے موت تک جان کی حفاظت کی جاتی ہے،ایسے ہی موت تک کے اعمال کی بھی حفاظت کی جاتی ہے۔

۳۔ تَوَفَّتۡہُ رُسُلُنَا: موت پر مقرر فرشتے، جو اللہ کے بھیجے ہوئے ہوتے ہیں، انسانوں کی روح قبض کرتے ہیں۔ دوسری جگہ فرمایا:

اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ ۔۔۔۔ (۳۹ زمر : ۴۲)

موت کے وقت اللہ روحوں کو قبض کرتا ہے۔۔۔۔

اس کو تضاد نہیں کہتے بلکہ اس امر کے سلسلہ اسباب و علل کا ذکر ہے۔ چنانچہ مثال دی جاتی ہے، خط، قلم، ہاتھ اور انسان کے ارادے سے کہ خط قلم کے ذریعے، اس کے پیچھے ہاتھ، اس کے پیچھے انسان کا ارادہ کار فرما ہے۔ (المیزان ۷: ۱۳۲)

اسی طرح ہے کہ کسی کو ناحق قتل کیا ہے تو سربراہ مملکت، قاضی اور جلاد سب کی طرف نسبت دینا صحیح ہے۔

۴۔ رُسُلُنَا: رسل سے مراد ملک الموت کے کارندے ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ بعض روایات میں وارد ہے۔

ان اللّٰہ تبارک و تعالیٰ جعل لملک الموت اعوانا من الملائکۃ ۔ (البرھان، ۲ :۴۲۷)

اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کے لیے کارندے مقرر فرمائے ہیں۔

مَوۡلٰىہُمُ الۡحَقِّ: ان کے مولائے برحق کی طرف لائے جائیں گے۔ اس میں لفظ مولا کی بڑی وضاحت آ گئی کہ مولا وہ ہے جو ہرگو نہ تصرف کا حق رکھتا ہو، خواہ یہ تصرف ایجاد سے متعلق ہو یا تدبیر سے۔ البتہ جن ذوات کو باذن خدا ولایت کا حق ملتا ہے وہ بقدر اذن ہے۔

۵۔ اَلَا لَہُ الۡحُکۡمُ: انسانی زندگی سے مربوط تمام فیصلے اور موت کا فیصلہ اور موت کے بعد اس انسان کی قسمت کا فیصلہ، سب اللہ کے پاس ہے۔ کسی غیر اللہ کو اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ وہ قیامت کے دن حساب اس طرح لے گا جس طرح دنیا میں روزی دیتا ہے اور وہ خود نظر نہیں آتا۔ (حدیث)

۲۔ اس زمین میں تمام اعمال کے انضباط کا قدرتی نظام ہے۔

۳۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: میری اجل ہی میری محافظ ہے۔


آیات 61 - 62