آیت 59
 

وَ عِنۡدَہٗ مَفَاتِحُ الۡغَیۡبِ لَا یَعۡلَمُہَاۤ اِلَّا ہُوَ ؕ وَ یَعۡلَمُ مَا فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ ؕ وَ مَا تَسۡقُطُ مِنۡ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعۡلَمُہَا وَ لَا حَبَّۃٍ فِیۡ ظُلُمٰتِ الۡاَرۡضِ وَ لَا رَطۡبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ﴿۵۹﴾

۵۹۔ اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ خشکی اور سمندر کی ہر چیز سے واقف ہے اور کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اس سے آگاہ ہوتا ہے اور زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ اور خشک و تر ایسا نہیں ہے جو کتاب مبین میں موجود نہ ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ عِنۡدَہٗ مَفَاتِحُ الۡغَیۡبِ: مَفَاتِحُ کو اگر مَفْتح ( بفتح میم ) کی جمع مان لیا جائے تو اس کے معنی خزانے کے ہوں گے اور اگر اس کو مِفْتح ( بکسر میم ) کی جمع مان لیا جائے تو اس کے معنی مفتاح کے ہوں گے یعنی چابیاں۔ ہم نے یہی معنی اختیار کیا ہے چونکہ دیگر قرآنی آیات، النور آیت ۶۱، قصص آیت ۷۱ میں مفاتحہ چابیوں کے معنی میں ہیں۔

غیبی علوم کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ غیبی علوم جو عالم شہود میں آ سکتے ہیں اور غیر خدا بھی اس پر باذن خدا آگاہ ہو سکتے ہیں۔ مثلاً وہ غیبی علوم جن کا اس آیت میں ذکر آیا۔ صحراؤں کے ذرات، دریاؤں اور سمندروں کے حیوانات، درختوں سے گرنے والے پتے جیسی معمولی جزئیات، زمین کی تاریک تہوں میں پوشیدہ دانوں کی خصوصیات وغیرہ۔

دوسرے وہ غیبی علوم جو عالم شہود میں نہیں آ سکتے۔ یہ علوم کسی زمانے کی حدود و قیود میں نہیں آتے۔ یہ اللہ کے لامحدود علم سے مربوط ہیں۔ چونکہ جیسا کہ خود ذات الٰہی لا محدود ہے، اس کا علم بھی لامحدود ہے اور جو عالم شہود میں آتا ہے، وہ محدود ہو جاتا ہے۔

یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات یا اپنی قدرت کے اسرار میں سے جو مقدار انسان کو دکھائی ہے، وہی سمجھ سکتا ہے۔ اس سے آگے انسانی ذہن کسی ایسی چیز کے سمجھنے پر قادر نہیں ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے ہمارے علم میں نہ ڈالا ہو۔ مثلاً اگر اللہ نے آتش کو خلق نہ فرمایا ہوتا تو انسان اسے نہیں سمجھ سکتا تھا۔ لہٰذا انسانی ذہن میں صرف وہ معلومات آسکتی ہیں جو وجود میں ہوں اور منصہ شہود میں آ چکی ہوں: سُبۡحٰنَکَ لَا عِلۡمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَا ۔۔۔۔(۲ بقرہ: ۳۲)

علامہ طباطبائی فرماتے ہیں:

ان المراد لمفاتح الغیب الخزائن الالہیۃ التی تشتمل علی الاشیاء قبل تفریغہا فی قالب الاقدار ۔ ( المیزان ۷: ۱۲۸)

مَفَاتِحُ الۡغَیۡبِ سے مراد وہ الہٰی خزانے ہیں جو ان اشیاء پر مشتمل ہیں جو ابھی مقدرات کے قالب میں نہیں آئیں۔

یہ غیبی علوم کا وہ حصہ ہے جو ذات الٰہی کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا۔ لَا یَعۡلَمُہَاۤ اِلَّا ہُوَ ۔

۲۔ وَ یَعۡلَمُ مَا فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ: انسان کے محدود حس و شعور کے لیے محدود محسوسات کی دو مثالیں: دریائی و خشکی کی موجودات، کل کائنات میں موجود دریاؤں کی موجودات، کائنات کے وجود سے پہلے جب عرش الٰہی پانی پر تھا۔ وَّ کَانَ عَرۡشُہٗ عَلَی الۡمَآءِ ۔ (۱۱ ہود: ۷)۔ اس زمانے کی آبی مخلوقات بلکہ ان کے وجود میں آنے سے پہلے اللہ ان سب کو جانتا ہے۔ البر میں وہ تمام کرات جو کل کائنات میں ہیں، ان سب کی موجودات کو ان کے وجود سے پہلے جانتا ہے۔

۳۔ وَ مَا تَسۡقُطُ مِنۡ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعۡلَمُہَا: پتوں کا گرنا۔ بقول فی ظلال القرآن بلندی سے نیچے کی طرف اور حیات سے نابودی کی طرف، یہ امور موت و فنا اور سقوط و انحطاط کی حرکت ہیں۔

اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے، خواہ ایک چھوٹا پتہ گرنے کا ہی کیوں نہ ہو، جو کسی کے لیے قابل توجہ نہیں ہے۔ البتہ واقع میں یہ صعود کے بعد نزول ہے۔ عروج کے بعد زوال ہے۔ بہار کے بعد خزاں ہے۔ ایک دورانیہ کا اختتام ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

۴۔ وَ لَا حَبَّۃٍ فِیۡ ظُلُمٰتِ الۡاَرۡضِ: یہ صرف اللہ جانتا ہے کہ زیر زمین کی تاریکیوں میں دانے کس خاصیت کے ہیں؟ کس تعداد میں ہیں؟ کس کس جگہ ہیں؟ ان کو ایک جگہ سے دوسرے مقامات کی طرف کن ذرائع سے منتقل کیا جاتا ہے؟ ان میں نشو و نما کی کیا کیا قوتیں پنہاں ہیں؟ زمین کی تاریکیوں سے نکل کر یہ دانے (بیج) کیا کیا رعنائیاں دکھاتے اور اہل ارض کے لیے متعدد اور متنوع نعمتیں فراہم کرتے ہیں؟

۵۔ وَ لَا رَطۡبٍ وَّ لَا یَابِسٍ: کائنات کی ہر چیز کو شامل کرنے کے لیے ایک جامع تعبیر ہے۔ انسان کے لیے جو قابل تصور ہے، وہ یہ ہے کہ مادی چیزیں یا خشک ہوتی ہیں یا تر اور ایسی شے قابل تصور نہیں ہے جو مادی ہو اور خشک بھی نہ ہو اور تر بھی نہ ہو۔

۶۔ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ: اللہ تعالیٰ اس کائنا ت میں موجود ہر شے اور یہاں رونما ہونے والے ہر واقعہ کے ماوراء ایک ایسی اہم ترین شے کا ذکر فرماتا ہے جسے ایک نظام کے لیے، ایک آئین کی حیثیت حاصل ہے کہ اس عالم شہود و عیاں میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ سب ان دفعات یا آرٹیکلز کے مطابق ہے جو اس بنیادی آئین میں لکھا ہوا ہے۔ اس آئین کو کتاب مبین، ام الکتاب، کتاب حفیظ، کتاب مکنون، الزبر وغیرہ کے نام سے یاد فرمایا ہے۔ چنانچہ سورہ حدید میں فرمایا:

مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡرَاَہَا ؕ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ (۵۷ حدید : ۲۲)

کوئی مصیبت زمین پر اور تم پر نہیں پڑتی مگر یہ کہ اس کے پیدا کرنے سے پہلے وہ ایک کتاب میں لکھی ہوتی ہے اللہ کے لیے یقینا یہ نہایت آسان ہے۔

دوسری جگہ فرمایا:

وَ مَا یُعَمَّرُ مِنۡ مُّعَمَّرٍ وَّ لَا یُنۡقَصُ مِنۡ عُمُرِہٖۤ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ (۳۵ فاطر : ۱۱)

اور نہ کسی زیادہ عمر والے کو عمر دی جاتی ہے اور نہ ہی اس کی عمر میں کمی کی جاتی ہے، مگر یہ کہ کتاب میں (ثبت) ہے یقینا یہ سب کچھ اللہ کے لیے آسان ہے۔

نیز ارشاد فرمایا:

وَ کُلُّ صَغِیۡرٍ وَّ کَبِیۡرٍ مُّسۡتَطَرٌ ۔ (۵۴ قمر: ۵۳)

اور ہر چھوٹی اور بڑی بات لکھی ہوئی ہے۔

وَ مَا یَعۡزُبُ عَنۡ رَّبِّکَ مِنۡ مِّثۡقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ وَ لَاۤ اَصۡغَرَ مِنۡ ذٰلِکَ وَ لَاۤ اَکۡبَرَ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ (۱۰ یونس : ۶۱)

اور زمین و آسمان کی ذرہ برابر اور اس سے چھوٹی یا بڑی کوئی چیز ایسی نہیں جو آپ کے رب سے پوشیدہ ہو اور روشن کتاب میں درج نہ ہو۔

آنے والے حوادث وقوع میں آنے سے پہلے اللہ کے علم میں ہوتے ہیں۔ ان میں انسان سے سرزد ہونے والے اعمال بھی شامل ہیں کہ اللہ کے علم میں ہے یا لوح محفوظ یا کتاب مبین میں ہے کہ فلاں بندہ اپنے اختیار اور پوری آزادی و خود مختاری سے کون سا عمل بجا لانے والا ہے۔

وَ کُلُّ شَیۡءٍ فَعَلُوۡہُ فِی الزُّبُرِ ۔ (۵۴ قمر: ۵۲)

اور جو کچھ انہوں نے کیا ہے، سب نامہ اعمال میں درج ہے۔

یہ نکتہ نہایت قابل توجہ ہے کہ اللہ کے علم ازلی سے جبر لازم نہیں آتا کیونکہ اللہ کے علم کا موضوع یہ ہے کہ خود مختار بندہ اپنی پوری خود مختاری کے ساتھ کیا کچھ کرنے والا ہے۔ جیسا کہ استاد کے علم میں آتا ہے

کہ کاہل مزاج شاگرد اپنی خود مختاری سے ناکامی کا منہ دیکھے گا۔ استاد کے علم سے لازم نہیں آتا کہ شاگرد ناکام ہونے پر مجبور ہے۔

اہم نکات

۱۔ لا محدود غیبی علوم پر صرف اللہ کو احاطہ ہے۔

۲۔ خشکی اور دریاؤں کی موجودات کا حقیقی علم اللہ کو حاصل ہے، دوسروں کا علم ظاہری اور سطحی ہے۔

۳۔ گرنے والے پتوں کا تنزل اور دانے کا ارتقا اسی کے علم میں ہے۔

۴۔ اللہ کی طرف سے اذن یافتہ ذوات کے علاوہ تمام کی غیب گوئیاں باطل ہیں۔

۵۔ اللہ کا علم جزئیات پر محیط ہے: وَ مَا تَسۡقُطُ مِنۡ وَّرَقَۃٍ ۔۔۔۔

۶۔ اس کائنات کے نظام کے ماوراء ایک آئین ہے، جسے کتاب مبین کہتے ہیں۔

۷۔ غیب پر ایمان، تحقیق اور انکشاف ہی علمی پیشرفت کے زینے ہیں۔


آیت 59