آیات 57 - 58
 

قُلۡ اِنِّیۡ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّیۡ وَ کَذَّبۡتُمۡ بِہٖ ؕ مَا عِنۡدِیۡ مَا تَسۡتَعۡجِلُوۡنَ بِہٖ ؕ اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ یَقُصُّ الۡحَقَّ وَ ہُوَ خَیۡرُ الۡفٰصِلِیۡنَ﴿۵۷﴾

۵۷۔ کہدیجئے: میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر(قائم) ہوں اور تم اس کی تکذیب کر چکے ہو، جس چیز کی تم جلدی کر رہے ہووہ میرے پاس نہیں ہے، فیصلہ تو صرف اللہ ہی کرتا ہے وہ حقیقت بیان فرماتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

قُلۡ لَّوۡ اَنَّ عِنۡدِیۡ مَا تَسۡتَعۡجِلُوۡنَ بِہٖ لَقُضِیَ الۡاَمۡرُ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِالظّٰلِمِیۡنَ﴿۵۸﴾

۵۸۔کہدیجئے: جس چیز کی تم جلدی کر رہے ہو اگر وہ میرے پاس موجود ہوتی تو میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ ہو چکا ہوتا اور اللہ ظالموں سے خوب واقف ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ اِنِّیۡ عَلٰی بَیِّنَۃٍ: بینہ اس دلیل کو کہتے ہیں جس میں حق کو باطل سے جدا کر کے دکھایا جاتا ہے۔ یہاں اس سے مراد قرآن ہے۔

۲۔ کَذَّبۡتُمۡ بِہٖ: میں بِہٖ قرآن کی طرف راجع ہے۔ یعنی تم نے اس دلیل کی تکذیب کی ہے۔ اس کے باوجود تمہاری تباہی میں اللہ تعالیٰ عجلت سے کام نہیں لیتا بلکہ تمہیں مہلت دے رہا ہے۔

۳۔ مَا عِنۡدِیۡ مَا تَسۡتَعۡجِلُوۡنَ بِہٖ: جو عذاب تم جلدی طلب کر رہے ہو، وہ میرے پاس نہیں ہے۔ مشرکین کو جب اپنے جرائم کی وجہ سے سابقہ امتوں کی طرح کے عذاب سے ڈرایا جاتا تھا تو وہ کہتے تھے: کہاں ہے وہ عذاب؟ اگر آپ سچے ہیں تو وہ عذاب کب آئے گا۔ فرمایا: وہ عذاب میرے پاس نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ اللہ نے کرنا ہے۔

ہر امت اپنے نبی سے فیصلہ کن معجزے طلب کرتی رہی ہے کہ اگر آپ برحق رسول ہیں تو ہم پر عذاب نازل کریں۔ نوح (ع) کی امت نے کہا:

فَاۡتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ ۔۔۔۔۔۔ (۱۱ہود: ۳۲)

اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔

قوم صالح نے کہا:

فَاۡتِ بِاٰیَۃٍ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ ۔۔۔۔ ( ۲۶ شعراء: ۱۵۴)

پس اگر تم سچے ہو تو کوئی نشانی (معجزہ) پیش کرو۔

قوم شعیب نے کہا:

فَاَسۡقِطۡ عَلَیۡنَا کِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ ۔۔۔۔ (۲۶ شعراء: ۱۸۷)

آسمان کا کوئی ٹکڑا ہم پر گرا دو۔

اور یہی مطالبہ رسول اسلامؐ کی امت نے بھی کر دیا:

اَوۡ تُسۡقِطَ السَّمَآءَ کَمَا زَعَمۡتَ عَلَیۡنَا کِسَفًا ۔۔۔۔ (۱۷ اسراء: ۹۲)

یا آپ آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہم پر گرا دیں جیساکہ خود آپ کا زعم ہے۔

جواب میں فرمایا: جس چیز کی تمہیں جلدی ہے، وہ میرے پاس نہیں ہے۔ فیصلہ تو صرف اللہ ہی کرتا ہے۔ وہ اگر چاہے تو تم پر عذاب نازل کرے اور قوم عاد و ثمود کی طرح تم کو ایک آن میں ہلاک کر دے۔

۴۔ اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ: فیصلے کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے۔ وہ چاہے تاخیر کرے، چاہے تعجیل کرے۔ جی ہاں! فیصلہ خواہ تکوینی ہو یا تشریعی صرف اللہ کرتا ہے۔ اگر کسی اور کی طرف کوئی فیصلہ منسوب ہو تو وہ اس لیے ہوتا ہے، چونکہ اللہ کی طرف منتہی ہوتا ہے۔

۵۔ یَقُصُّ الۡحَقَّ: حق بیان کرنے کے بعد مہلت دی جاتی ہے۔ یَقُصُّ کے ایک معنی اتباع سے بھی کیا ہے، چونکہ قص کے معنی پیچھا کرنے کے بھی ہیں۔

اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ غیر اللہ کی بندگی، خواہشات کی بندگی ہے اور خواہشات کی بندگی گمراہی ہے۔

۶۔ لَقُضِیَ الۡاَمۡرُ: جس عذاب کی تمہیں جلدی ہے، اس کا فیصلہ اگر میرے پاس آ جاتا تو فوری نفاذ کے لیے آ جاتا اور میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ ہو چکا ہوتا۔

اہم نکات

۱۔ اللہ خود بہتر جانتا ہے کہ کس وقت عذاب دینا ہے۔

۲۔ یہ اللہ کا مقام رحمانیت ہے کہ کفار عذاب کے مستحق بھی ہیں اور خود مطالبہ کرتے ہیں، پھر بھی عذاب نہیں بھیجتا۔


آیات 57 - 58