آیات 95 - 96
 

لَا یَسۡتَوِی الۡقٰعِدُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ غَیۡرُ اُولِی الضَّرَرِ وَ الۡمُجٰہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ ؕ فَضَّلَ اللّٰہُ الۡمُجٰہِدِیۡنَ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ عَلَی الۡقٰعِدِیۡنَ دَرَجَۃً ؕ وَ کُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الۡحُسۡنٰی ؕ وَ فَضَّلَ اللّٰہُ الۡمُجٰہِدِیۡنَ عَلَی الۡقٰعِدِیۡنَ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿ۙ۹۵﴾

۹۵۔ بغیر کسی معذوری کے گھر میں بیٹھنے والے مؤمنین اور راہ خدا میں جان و مال سے جہاد کرنے والے یکساں نہیں ہو سکتے، اللہ نے بیٹھے رہنے والوں کے مقابلے میں جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ زیادہ رکھا ہے، گو اللہ نے سب کے لیے نیک وعدہ فرمایا ہے، مگر بیٹھنے والوں کی نسبت جہاد کرنے والوں کو اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔

دَرَجٰتٍ مِّنۡہُ وَ مَغۡفِرَۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿٪۹۶﴾

۹۶۔(ان کے لیے) یہ درجات اور مغفرت اور رحمت اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

جہاد: اپنی بقاء کی جنگ ہر ذی روح لڑتا ہے۔ چونکہ یہ اس کا فطری حق ہے کہ اس کی زندگی اور زندگی کے لوازمات کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کے ساتھ مزاحمت کرے۔

اگر کوئی طاقت کسی انسان کی زندگی کے درپے اس لیے ہو جائے کہ وہ اللہ پر ایمان لاتا ہے تو ایسی طاقت کے ساتھ مزاحمت کرنے کو جہاد کہتے ہیں۔

لہٰذا جہاد فی سبیل اللہ اپنی بقا کی جنگ بھی ہے اور اس بقا کو راہ خدا میں کرنے کی بھی سعی ہے، جس میں فرد امت کی بقا پر قربان ہو جاتا ہے۔

رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےہمراہ جہاد کرنے والوں نے اپنے جہاد سے ایک امت کو زندگی دی۔ یہ زندگی قیامت تک جاری رہے گی۔ اس امت کی رگوں میں قیامت تک جو خون گردش کرتا رہے گا، اس خون کو عصر رسولؐ کے مجاہدوں نے دوڑا دیا تھا۔

اسی لیے اس آیت میں رسولؐ کے ساتھ جہاد کرنے والے مجاہدین کی دوسروں پر فضیلت کا ذکر تین بار تکرار کیا گیا۔ لہٰذا قرآن کی رو سے یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ رسول اللہؐ کے ساتھ جس کا جہاد زیادہ ہے، اس کی فضیلت سب سے زیادہ ہے۔

دَرَجٰتٍ مِّنۡہُ: یعنی یہ تفضیل، یہ برتری اللہ کے نزدیک درجات کے لحاظ سے ہے۔ اس سے اس بات کی بھی صراحت آگئی کہ یہ برتری اور تفضیل کس اعتبار سے ہے اور جہاد چونکہ اس امت کے لیے ایک تقدیر ساز مسئلہ ہے، اس لیے جس قدر اس کی فضیلت زیادہ ہے، اس قدر اس سے فرار کرنا بڑا جرم ہے اور سات بڑے گناہوں میں شمار ہوتا ہے۔

احادیث

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

الجہاد باب من ابواب الجنۃ ۔ (الکافی ۵ : ۴۔ باب فضل الجہاد)

جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔

حضرت امام جعفر صادق (ع) سے روایت ہے کہ آپؑ نے علی ابن عبد العزیز سے فرمایا: کیا میں تجھے اسلام کی بنیاد اور اس کی شاخوں اور اس کی چوٹی کے بارے میں بتا دوں؟ عرض کیا فرمائیے۔ فرمایا:

اَصْلُہُ الصَّلَاۃُ وَ فَرْعُہُ الزَّکَاۃُ وَ ذِرْوَتُہُ وَ سَنَامُہُ الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ اَلَا اُخْبِرُکَ بِاَبْوَابِ الْخَیْرِ الصَّوْمُ جُنَّۃٌ مِنَ النَّارِ ۔ (الفقیہ ۲ : ۷۵)

اسلام کی بنیاد نماز، اس کی شاخیں زکوٰۃ اور اس کی چوٹی جہاد فی سبیل اللہ ہے اور میں تجھے بھلائی کے دروازوں کے بارے میں بتاؤں؟ روزہ آتش کے لیے سپر ہے۔

اہم نکات

۱۔ فضیلت کا پیمانہ جہاد ہے۔ رسول اللہ ؐکے ساتھ جس کا جہاد زیادہ، اس کی فضیلت زیادہ ہے۔دَرَجٰتٍ مِّنۡہُ ۔۔۔۔


آیات 95 - 96