آیت 79
 

مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ۫ وَ مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ سَیِّئَۃٍ فَمِنۡ نَّفۡسِکَ ؕ وَ اَرۡسَلۡنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوۡلًا ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا﴿۷۹﴾

۷۹۔تمہیں جو سکھ پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو دکھ پہنچے وہ خود تمہاری اپنی طرف سے ہے اور ہم نے آپ کو لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اور (اس پر) گواہی کے لیے اللہ کافی ہے۔

تفسیر آیات

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سابقہ آیت میں فرمایا کہ دکھ سکھ سب اللہ کی طرف سے ہے اور اس آیت میں ارشاد ہو رہا ہے کہ سکھ تو اللہ کی طرف سے ضرور ہے، لیکن دکھ خود تمہاری طرف سے ہے۔ اس میں بادی النظر میں ایک تضاد بیانی دکھائی دیتی ہے۔

جواب: اس کائنات میں سب پر اللہ کا فیض جاری ہے۔ البتہ ظرف میں گنجائش اور لیاقت ضروری ہے کہ وہ اس قابل ہو جائے کہ اللہ کا فیض حاصل کر سکے۔ اگر ظرف میں فیض الٰہی کے لیے گنجائش اور قابلیت موجود ہے تو یہ سکھ ہے، جو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر ظرف میں گنجائش اور قابلیت نہیں ہے تو اللہ کا فیض حاصل نہیں ہو سکتا، یہ دکھ ہے۔ اس کا مسؤل و ذمہ دار خود ظرف ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمۡ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعۡمَۃً اَنۡعَمَہَا عَلٰی قَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ ۔۔۔۔ (۸ انفال: ۵۳)

ایسا اس لیے ہوا کہ اللہ جو نعمت کسی قوم کو عنایت فرماتا ہے، اس وقت تک اسے نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہیں بدلتے۔

لہٰذا یہ بات بھی درست ہے کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے کہ ظرف میں قابلیت نہ ہونے کی وجہ سے اللہ فیض بند کرتا ہے۔ یہ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ کے تحت ہے اور ظرفیت میں گنجائش پیدا نہ کرنا خود بندے کی اپنی کوتاہی ہے۔ یہ فَمِنۡ نَّفۡسِکَ کے تحت ہے ۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ اسباب وسائل کی طرف دیکھو تو سب اللہ کی طرف سے ہیں۔ قاتل کے بازو میں طاقت، تلوار میں روانی وغیرہ اللہ کی طرف سے، لیکن ان اسباب و وسائل کا استعمال بندے کی طرف سے ہے کہ اس نے اپنے بازو کی قوت اور تلوار کی روانی کو ایک بے گناہ کے قتل میں استعمال کیا ہے۔ لہٰذا فراہمی وسائل کے تحت کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ہے اور استعمال و اختیار کے تحت فَمِنۡ نَّفۡسِکَ ہے۔

اہم نکات

۱۔ اس آیت میں مومن کو یہ بتایا گیا ہے کہ جہاں اس کائنات میں صرف اللہ ہی کی حاکمیت ہے، وہاں انسان کو درپیش مسائل میں بھی کامیابی و ناکامی کی ذمہ داری خود انسان پر عائد ہوتی ہے۔ عقیدۂ جبر کے ماننے والوں کی طرح ناکامیوں کو تقدیر کے ذمے ڈال کر خود کو فارغ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ مومن انسان اپنے اعمال کا خود ذمے دار ہے۔


آیت 79