آیت 78
 

اَیۡنَ مَا تَکُوۡنُوۡا یُدۡرِکۡکُّمُ الۡمَوۡتُ وَ لَوۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ بُرُوۡجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ؕ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ حَسَنَۃٌ یَّقُوۡلُوۡا ہٰذِہٖ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ۚ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌ یَّقُوۡلُوۡا ہٰذِہٖ مِنۡ عِنۡدِکَ ؕ قُلۡ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ فَمَالِ ہٰۤؤُلَآءِ الۡقَوۡمِ لَا یَکَادُوۡنَ یَفۡقَہُوۡنَ حَدِیۡثًا﴿۷۸﴾

۷۸۔(تمہیں موت کا خوف ہے) تم جہاں کہیں بھی ہو خواہ تم مضبوط قلعوں میں بند رہو موت تمہیں آ لے گی اور انہیں اگر کوئی سکھ پہنچے تو کہتے ہیں: یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر انہیں کوئی دکھ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ آپ کی وجہ سے ہے، کہدیجئے: سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے، پھر انہیں کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں ہی نہیں آتی؟

تشریح کلمات

بُرُوۡجٍ:

( ب ر ج ) مضبوط قصر اور محلات کو کہتے ہیں اور ستاروں کی مخصوص منازل کو بھی بروج کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

جہاد سے کترانے والوں کا مؤقف اور ان کے لیے نصیحت بیان ہو رہی ہے:

اَیۡنَ مَا تَکُوۡنُوۡا: ترک جہاد، موت سے خوف کی و جہ سے ہو سکتا ہے۔ اس شبہ کا ازالہ فرمایا کہ تم ترک جہاد کے ذریعے موت سے نجات حاصل نہیں کر سکتے۔ موت نے تو تمہیں تمہارے مقررہ وقت میں آ لینا ہے۔ خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہی بند کیوں نہ ہو۔

ii۔ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ حَسَنَۃٌ: دوسری بات ایک اہم مسئلے کے بارے میں ان کی ایک غلط فہمی کا ازالہ ہے۔ وہ یہ کہ مسلمانوں کو جب فتح و نصرت ملتی تو وہ اسے اللہ کی طرف نسبت دیتے تھے کہ اللہ نے ہمیں فتح و نصرت سے نوازا، لیکن جب کبھی ہزیمت اٹھانا پڑتی تو یہ لوگ اسے رسول (ص) کی طرف نسبت دیتے تھے۔ اس نسبت کے بارے میں دو تفسیریں موجود ہیں:

ایک یہ کہ وہ اس ہزیمت اور شکست کو رسول (ص) کی بے تدبیری کا نتیجہ قرار دیتے تھے، جیساکہ بعض جنگوں میں لوگوں نے جنگی حکمت عملی میں رسول اللہ (ص) سے اختلاف کیا۔ البتہ یہ اختلاف وہ اس وقت کرتے تھے جب وہ رسول (ص) سے پوچھتے تھے کہ یہ حکمت عملی اللہ کی طرف سے ہے یا آپ (ص) کی اپنی طرف سے؟ تو رسول اللہ (ص) فرماتے تھے کہ یہ میری اپنی طرف سے ہے۔ اس تفسیر کے مطابق ممکن ہے کہ ایسا نظریہ رکھنے والے لوگ ضعیف الایمان مسلمان ہوں۔

دوسری تفسیر یہ ہے کہ لوگ اس ہزیمت اور شکست کو رسول کریم (ص) کی (معاذ اللہ) نحوست سمجھتے تھے، جیسا کہ قوم موسیٰ (ع) کے بارے میں ہے:

وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌ یَّطَّیَّرُوۡا بِمُوۡسٰی وَ مَنۡ مَّعَہٗ ۔۔۔۔ (۷ اعراف : ۱۳۱)

اور اگر برا زمانہ آتا تو اسے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کی بد شگونی ٹھہراتے۔۔۔۔

اس تفسیر کے مطابق ایسا نظریہ رکھنے والے منافقین ہی ہو سکتے ہیں۔ قُلۡ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ اے رسولؐ ان سے کہدیجیے: یہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔ جب کہ یہ فتح و شکست اللہ کے وضع کردہ نظام یعنی نظام علل و اسباب کا لازمی حصہ ہے۔ لہٰذا نظام طبیعیت میں رونما ہونے والے تمام واقعات اللہ کے وضع کردہ قانون طبیعیت کے مطابق وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد فرمایا:


آیت 78