آیت 58
 

اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا ۙ وَ اِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمۡ بِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا﴿۵۸﴾

۵۸۔بے شک اللہ تم لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل کے سپرد کر دو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کرو، اللہ تمہیں مناسب ترین نصیحت کرتا ہے، یقینا اللہ تو ہر بات کو خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

تفسیر آیات

الۡاَمٰنٰتِ: عربی زبان میں جمع کے لفظ پر ال داخل ہو جانے سے لفظ عموم کے معنی دیتاہے۔ لہٰذا اس آیت میں یہ حکم ملتا ہے کہ تم امانتوں کو ان کے اہل کے سپرد کرو۔ اس حکم میں امانت کے لوٹانے کا حکم عام ہے۔ خواہ وہ مالی امانت ہو یا غیر مالی ۔ امین، حاکم ہوں یا رعایا۔ جس کی امانت ہے، وہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ ادائے امانت انسانی حقوق میں سرفہرست ہے۔ یہ امت مسلمہ کی ہادیانہ ذمہ داری ہے، امت قرآن کی قائدانہ مسؤلیت ہے اور امت محمدیہ کا اخلاقی دستور ہے۔ یہ شریعت اسلامیہ کا حقوق انسانی کا دستور ہے۔ امانت کی ادئیگی حفظ نظام کی ضمانت، انسانی فلاح و کامیابی کے لیے اساس، نوع انسانی کی سعادت کا راز ہے۔ اس کے مقابلے میں خیانت ایک غیر انسانی عمل، اجتماعی نظام کے لیے ایک ناقابل تلافی خلل، فساد معاشرہ کی اساس اور انسانیت کے لیے بد بختی کا سامان ہے۔ قدیم اور جدید جاہلیت کا مشترکہ دستور عمل، خیانت اور بد عہدی ہے۔ حکمرانوں میں امانت کے فقدان سے مسلم امہ اغیار کی غلامی میں مبتلا ہے، جب کہ علماء میں امانت کے فقدان سے امت مسلمہ بدعملی کا شکار ہے۔ اس طرح معاشرے میں امانت کے فقدان سے فساد عام ہے اور پسماندگی کا سبب بنا ہوا ہے۔

اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ: دوسرا اہم دستور جو اس آیت میں تاکیداً دیا گیا ہے، وہ فیصلوں میں عدل و انصاف ہے۔ یہ انصاف بین الناس یعنی سب انسانوں کے لیے فراہم کرنے کا حکم ہے، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ یہ بھی انسانی حقوق کا اہم حصہ ہے کہ امت مسلمہ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ تمام انسانوں کے لیے یہ حق ادا کیا جائے۔

انسانی حقوق کی دو اہم دفعات امانت و عدالت ہیں، جن پر نوع انسانی کی سعادت، صلح و آشتی اور امن و سکون موقوف ہے۔

دو اہم نکتے:

i۔ اس آیت میں ادائے امانت اور عدل و انصاف کے لیے اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ ’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے‘‘ کی نہایت تاکیدی تعبیر اختیار فرمائی۔ ورنہ یوں بھی کہا جا سکتا تھا: و ان ادّوا الامانات ۔ ’’اور امانتوں کو ادا کرو۔‘‘

ii۔ اس آیت کے آخر میں فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمۡ اللہ تمہیں مناسب ترین نصیحت کرتا ہے۔ یعنی امانت اور عدل و انصاف سے زیادہ اہم اور مناسب دستور حیات ہو ہی نہیں سکتا۔

احادیث

روایت کے مطابق امانت میں ہر وہ بات شامل ہے جس میں انسان کو امین بنایا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ کی امانت، اوامر و نواہی ہیں۔ عباد اللہ کی امانت، جس مال و غیر مال کا امین بنایا جائے۔ روایات میں آیا ہے: دو بچوں نے امام حسن علیہ السلام سے کہا: ہم دونوں میں سے کس کا خط اچھا ہے؟ آپؑ فیصلہ دیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے یہ دیکھ کر فرمایا:

یا بنی انظر کیف نحکم فان ھذا حکم واللہ سائلک عنہ یوم القیمۃ ۔ ( تفسیر روح المعانی ۵: ۶۴۔ تفسیر مجمع البیان ۳:۱۱۳)

دیکھو بیٹا! کس طرح فیصلہ دیتے ہو۔ یہ بھی ایک فیصلہ ہے اور اللہ قیامت کے دن تجھ سے اس فیصلے کے بارے میں پوچھے گا۔

رسول اکرم (ص) سے روایت ہے :

عَلَامَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَ اِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ، وَ اِذَا ائْتُمِنَ خَانَ ۔ (مستدرک المسائل ۱۴ : ۱۳)

منافق کی تین علامات ہیں: جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو پورا نہیں کرتا اور جب اس کو امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

العدل حیاۃ (غرر الحکم حکمت: ۱۶۹۹۔ باب الثالث العدل)

عدل و انصاف زندگی ہے۔

نیز آپ علیہ السلام سے روایت ہے:

لا یکون العمران حیث یجور السلطان ۔ (حوالہ سابق۔ حکمت ۸۰۵۰ ۔ آثار الحکومۃ الجائرہ۔)

جہاں حکمران ظالم ہوں وہاں ملک کی تعمیر و ترقی ناممکن ہے۔

نیز آپ (ع) سے روایت ہے:

امام عادل خیر من مطر وابل (حوالہ سابق ۔ حکمت: ۷۷۳۱ ۔ الفصل الاول)

عادل حکمران موسلادھار بارش سے بھی بہتر ہے۔

اہم نکات

۱۔ اسلامی تعلیمات میں ادائے امانت اور عدالت کا قیام انسانی حقوق میں سے ہیں۔ اس میں مسلم غیر مسلم سب برابر ہیں۔ ادائے امانت کے لیے اِلٰۤی اَہۡلِہَا اور عدالت کے لیے بَیۡنَ النَّاسِ کی عمومیت اس پر شاہد ہے۔

۲۔ امانت و عدالت کی پابندی کا حکم اللہ کے نزدیک مناسب ترین نصیحت ہے۔ نِعِمَّا یَعِظُکُمۡ ۔۔۔


آیت 58