آیت 57
 

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدۡخِلُہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ لَہُمۡ فِیۡہَاۤ اَزۡوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ ۫ وَّ نُدۡخِلُہُمۡ ظِلًّا ظَلِیۡلًا﴿۵۷﴾

۵۷۔اور جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ہیں انہیں ہم جلد ہی ایسی جنتوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں وہ ابد تک رہیں گے، جن میں ان کے لیے پاکیزہ بیویاں ہیں اور ہم انہیں گھنے سایوں میں داخل کریں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا: پہلی آیت میں ہر آن کھال تبدیل کر کے عذاب کو دوام دینے کے ذکر کے بعد فرمایا: اس کے مقابلے میں اہل ایمان جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہاں کی زندگی بھی دائمی ہے۔

۲۔ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا: خلود ہمیشہ رہنے کو کہتے ہیں۔ اس پر مزید تاکید کے لیے اَبَدًا کا ذکر فرمایا کہ جنت کی زندگی ابدی ہے۔

اس دنیا کی زندگی پرآشوب ہونے کے باوجود انسان زندہ رہنا چاہتا۔ لہٰذا انسان کی فطرت میں ایک چیز کا ہونا اس بات کے لیے دلیل ہے کہ ایسی دوامی اور ابدی زندگی موجود ہے۔ یہ دنیا میں نہیں توآخرت میں ضرور ہے۔ چنانچہ پیاس کا ہونا دلیل ہے کہ اس کو بجھانے کے لیے پانی موجود ہے۔ اگر پانی نہ ہوتا تو پیاس ہرگز موجود نہ ہوتی۔

۲۔ لَہُمۡ فِیۡہَاۤ اَزۡوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ: زوجہ انسان کے لیے سب سے زیادہ قریب اور سب سے زیادہ مانوس چیز ہے۔

۳۔ وَّ نُدۡخِلُہُمۡ ظِلًّا ظَلِیۡلًا: سایہ کا مطلب یہ ہے کہ روشنی اور اس روشنی کی حرارت کی وجہ سے اذیت بھی نہیں ہے۔ چنانچہ جنت کے اوصاف میں فرمایا:

لَا یَرَوۡنَ فِیۡہَا شَمۡسًا وَّ لَا زَمۡہَرِیۡرًا (۷۶ دھر: ۱۳)

(جنت میں) نہ دھوپ کی گرمی دیکھنے کا اتفاق ہو گا اور نہ سردی کی شدت۔

اہم نکات

۱۔ اہل ایمان کے لیے جنت کی زندگی دائمی ہے۔


آیت 57