آیات 229 - 230
 

اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪ فَاِمۡسَاکٌۢ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ تَسۡرِیۡحٌۢ بِاِحۡسَانٍ ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَکُمۡ اَنۡ تَاۡخُذُوۡا مِمَّاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ شَیۡئًا اِلَّاۤ اَنۡ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا یُقِیۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰہِ ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَا فِیۡمَا افۡتَدَتۡ بِہٖ ؕ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ فَلَا تَعۡتَدُوۡہَا ۚ وَ مَنۡ یَّتَعَدَّ حُدُوۡدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿۲۲۹﴾

۲۲۹۔ طلاق دو بار ہے پھر یا تو شائستہ طور پر عورتوں کو اپنی زوجیت میں رکھ لیا جائے یا اچھے پیرائے میں انہیں رخصت کیا جائے اور یہ جائز نہیں کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لے لو مگر یہ کہ زن و شوہر کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے، پس اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ زوجین اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو زوجین کے لیے (اس مال میں) کوئی مضائقہ نہیں جو عورت بطور معاوضہ دے دے، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں سو ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کرتے ہیں پس وہی ظالم ہیں۔

فَاِنۡ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنۡۢ بَعۡدُ حَتّٰی تَنۡکِحَ زَوۡجًا غَیۡرَہٗ ؕ فَاِنۡ طَلَّقَہَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَاۤ اَنۡ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنۡ ظَنَّاۤ اَنۡ یُّقِیۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ یُبَیِّنُہَا لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ﴿۲۳۰﴾

۲۳۰۔ اگر (تیسری بار) پھر طلاق دے دی تو وہ عورت اس کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہو گی جب تک کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کر لے، ہاں اگر دوسرا خاوند طلاق دے اور عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کی طرف رجوع کریں تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ انہیں امید ہو کہ وہ حدود الٰہی کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ ہیں اللہ کی مقرر کردہ حدود جنہیں اللہ دانشمندوں کے لیے بیان کرتا ہے۔

تشریح کلمات

تَسۡرِیۡحٌۢ:

( س ر ح ) آزاد کرنا۔ چھوڑنا۔ اصل میں یہ لفظ جانور چرانے کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔

تفسیر آیات

۱۔ شوہر اپنی منکوحہ بیوی کو دو مرتبہ طلاق دے کر رجوع کر سکتا ہے۔ اگردو مرتبہ طلاق دے کر رجوع کر چکا ہو تو اس کے بعد جب کبھی وہ اسے تیسری بار طلاق دے گا تو عورت اس سے مستقل طو رپر جدا ہو جائے گی۔ تیسری طلاق کے بعد رجوع کا حق ختم ہو جائے گا۔ لہٰذا دو مرتبہ طلاق دینے کے بعد شوہر بہتر طریقے سے رجوع کرتے ہوئے بیوی کو اپنی زوجیت میں رکھ لے یا تیسری طلاق دے کر اسے مستقل طور پر فارغ کر دے۔

۲۔ وہ مہر جو شوہر اپنی بیوی کے عقد نکاح میں معین کرے، اس میں سے کوئی چیز نہ دینے یا واپس مانگنے کا اسے حق حاصل نہیں ہے۔ ایسا کرنا تَسۡرِیۡحٌۢ بِاِحۡسَانٍ کے منافی ہے۔

۳۔ اگر میاں بیوی اسلامی احکام کی حدود میں رہ کر اپنی زوجیت کا نظام برقرار نہ رکھ سکیں اور عورت مرد سے اس حد تک متنفر ہو جائے کہ وہ اس کے ساتھ زندگی نہ گزار سکتی ہو تو اس صورت میں عورت کچھ معاوضہ دے کر شوہر سے طلاق حاصل کر سکتی ہے۔ اسے اصطلاح میں خلع کہتے ہیں۔ خلع طلاق بائن ہے جس کے بعد شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ البتہ اگر عورت عدت کے دوران معاوضہ واپس لے لے تو شوہر بھی رجوع کر سکتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ اگر عورت شوہرسے متنفر نہ ہو اور شوہر از خود طلاق دے تو اس صورت میں عورت سے کچھ لینا حرام ہے اور اگر عورت متنفر ہے اور معاوضہ دے کر طلاق حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس صورت میں عورت سے معاوضہ لینا جائز ہے۔

۴۔ تیسری بار طلاق دینے کی صورت میں یہ عورت مستقل طور پر جدا ہو جاتی ہے۔ اب سابقہ شوہر نہ اس سے دوبارہ عقد کر سکتا ہے اور نہ رجوع، جب تک وہ عورت کسی دوسرے مرد سے شادی کر کے مطلقہ نہ ہو جائے۔ پس اگر وہ عورت کسی اور مرد سے شادی کر لیتی ہے تو صرف عقد کافی نہیں ہے، بلکہ ہمبستری بھی شرط ہے۔ پھر اگر وہ اسے طلاق دے تو پہلے شوہر کے لیے جائز ہے کہ وہ اس عورت سے تیسری بار عقد کر لے۔

ایک مجلس میں تین طلاقوں کا حکم

امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس قسم کی طلاق حرام ہے، لیکن اس کے باجود طلاق مؤثر اور نافذ ہے۔ امام شافعی اور امام احمد بن حبنل کے نزدیک یہ طلاق حرام نہیں ہے اور مؤثر بھی ہے۔ ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے اس قسم کی طلاق کو قرآن کریم کی صریح مخالفت قرار دیا ہے اور جو عمل قرآن کا مخالف ہو وہ مٔوثر واقع نہیں ہوتا۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوۡہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ ۔۔۔۔ {۶۵ طلاق : ۱}

اے نبی ! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لیے طلاق دے دیا کرو۔

ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینے کی صورت میں عدت پہلی طلاق کے لیے متصور ہو گی۔ دوسری اور تیسری طلاق کی عدت ہی نہیں بنتی۔ لہٰذا دوسری اور تیسری طلاق لِعِدَّتِہِنَّ نہ ہونے کی وجہ سے غیر مؤثر واقع ہو گی۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

اِنَّ رَجُلاً قَالَ لَہٗ اِنِّیْ طَلَّقْتُ اِمْرأتِیْ ثَلَاثاً فِیْ مَجْلِسٍ قَالَ : لَیْسَ بِشَیْئٍ ثُمَّ قَالَ: اَمَا تَقْرَأُ کِتَابَ اللّٰہِ: ’’ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَائَ فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ ‘‘ اِلٰی قَوْلِہِ ’’ لَعَلَ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا ‘‘ ثُمَّ قَالَ کُلُّ مَا خَالَفَ کِتَابَ اللّٰہِ وَ السُّنَّۃَ فَھُوَ یُرَدُّ اِلَی کِتَابِ اللّٰہِ وَ السُّنَّۃِ ۔ {الوسائل ۲۲ : ۶۹}

ایک شخص نے آپ (ع) سے پوچھا : میں نے اپنی عورت کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں؟ فرمایا: اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کیا تو اللہ کی کتاب میں نہیں پڑھتا : اے نبی جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لیے طلاق دیا کرو۔ پھر فرمایا: جو کتاب و سنت کے خلاف ہو گا، اسے قرآن و سنت کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔

چنانچہ اس مطلب پر قرآن کے ساتھ سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا صریح حکم بھی موجود ہے۔ نسائی نے اپنی سنن میں یہ حدیث نقل کی ہے:

اَخْبَرَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ (وَ آلِہٖ) وَ سَلَّمْ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ اِمْرَأتَہٗ ثَلَاثَ تَطْلِیْقَاتٍ جَمِیْعاً فَقَامَ غَضْبَانِ، ثُمَّ قَالَ: اَیَلْعَبُ بِکَتَابِ اللّٰہِ وَ اَنَا بَیْنَ اَظْہُرِکُمْ حَتّٰی قَامَ رَجُلٌ وَ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ألَا اَقْتُلُہُ ۔ {سنن نسائی ۶:۱۱۶}

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و (آلہ) وسلم کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی عورت کو ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہیں تو آپ (ص) غضبناک ہو کر کھڑے ہوگئے اور فرمایا: کیا کتاب اللہ کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے؟ حالانکہ ابھی میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔ یہاں تک کہ ایک شخص کھڑا ہو گیا اور کہا: یا رسول اللہ (ص) میں اسے قتل نہ کر دوں؟

فی حدیث ابن عباس:

اِنَّ عَبْدِ یَزِیْدَ طَلَّقَ زَوْجَتَہٗ وَ تَزَوَّجَ بِاُخْرَیٰ فَاَتَتْ اَلنَّبِیَّ شَکَتْ اِلَیْہِ، فَقَالَ النَّبِیُّ لَعَبْدِ یَزِیْدَ رَاجِعْہَا فَقَالَ: اِنِّیْ طَلَّقْتُہَا ثَلَاثاً یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ: قَدْ عَلِمْتُ رَاجِعْہَا وَ تَلَا ہَذِہِ الْاٰیَۃَ: یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوۡہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ ۔ {سنن بیہقی۷ : ۳۳۹}

عبد یزید نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور دوسری سے شادی کر لی۔ پس اس نے رسول اللہ (ص) کے پاس آ کر شکایت کی۔ نبی اکرم نے عبد یزید کو حکم دیا کہ رجوع کرے، تو کہا:یا رسول اللہ بیشک میں نے اسے تین طلاقیں دی ہیں۔ فرمایا: مجھے معلوم ہے۔ رجوع کرو اور اس آیت کی تلاوت فرمائی: یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوۡہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ

چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس سے یہ روایت منقول ہے:

قَالَ کَانَ الطَّلاَقُ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ ( وَ آلِہ )ٖوَ سَلَّمْ وَ اَبِی بَکْرٍ وَ سَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلاَثِ وَاحِدَۃً فَقَالَ عُمَرُ بْنِ الْخَطَّابِ اِنَّ النَّاسَ قَدْ اِسْتَعْجَلُوْا فِی اَمْرٍ قَدْ کَانَتْ لَہُمْ فِیْہِ اَنَاۃٌ فلو اَمْضَیْنَاہُ عَلَیْہِمْ فَاَمْضَاہُ عَلَیْہِمْ ۔ {صحیح مسلم کتاب الطلاق ۷:۳۳۶۔ مسند احمد ۱ : ۳۱۴}

رسول اللہ صلی اللہ علیہ (و آلہ) وسلم اور ابوبکر کے عہد میں اور خلافت عمر کے دو سال تک تین طلاقیں ایک طلاق شمار ہوا کرتی تھیں۔ پھر عمر بن خطاب نے کہا: لوگوں نے اس امر میں عجلت سے کام لیا جس میں ان کے لیے مہلت موجود تھی، تو کیوں نہ ہم ان کی اس عجلت کو نافذ کر دیں۔ چنانچہ انہوں نے اسے نافذ کر دیا۔

نیز اس سلسلے میں ابو الصہباء کے حضرت ابن عباس سے مکرر سوال اور ابن عباس کی تصدیق کہ عہد رسالتؐ اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی امارت کے ابتدائی ایام میں تین طلاقیں، ایک طلاق شمار ہوتی تھیں، کی تحقیق کے لیے ملاحظہ ہو: صحیح مسلم ۱: ۵۷۴۔ سنن ابی داؤد صفحہ ۳۴۴۔

اس سلسلے میں علامہ جزیری رقمطراز ہیں:

تمام علماء نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ عہد رسالت میں طلاق کی یہی حالت تھی اور مسلم کی حدیث پر بھی کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ ان کی دلیل صرف حضرت عمر کا عمل اور پھر اکثریت کا ان کے ساتھ اتفاق کرنا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم موقت تھا۔ اس لیے حضرت عمر نے اسے ایسی حدیث کے ذریعے نسخ کیا جسے انہوں نے ہمارے لیے بیان نہیں کیا اور اجماع اس پر دلیل ہے۔ {الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ۴: ۳۴۱۔ کتاب الطلاق}

تعجب کا مقام ہے کہ حضرت عمر کو وہ حکم نسخ کرنے کا حق کیسے مل گیا جو رسول اللہ کے زمانے میں نافذ العمل تھا جب کہ خود حضرت عمر نے تو کسی حدیث کی طرف اشارہ تک نہیں کیا۔ کیا اس موہوم حدیث سے بھی حکم قرآن نسخ ہو سکتا ہے، جسے نہ کسی نے روایت کیا اور نہ کوئی اس کا مدعی ہے؟ اصول میں یہ امر طے شدہ ہے کہ صرف متواتر سنت سے قرآن کا نسخ ممکن ہے۔ یہاں تو ایک موہوم حدیث سے قرآن کا حکم منسوخ ہو رہا ہے جو خبر واحد بھی نہیں ہے۔

قرآن مجید میں اس بات کی صراحت موجود ہے: اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪ فَاِمۡسَاکٌۢ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ تَسۡرِیۡحٌۢ بِاِحۡسَانٍ یعنی طلاق دو بار ہے، پھر یا شائستہ طور پر عورتوں کو اپنی زوجیت میں رکھ لیا جائے یا اچھے پیرائے میں انہیں رخصت کیا جائے۔ فَاِنۡ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنۡۢ بَعۡدُ حَتّٰی تَنۡکِحَ زَوۡجًا غَیۡرَہٗ ۔ یعنی اگر تیسری بار اسے طلاق دے تو عورت اس کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہوگی جب تک کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے۔ آیت کی رو سے خود طلاق کا تین مرتبہ وقوع پذیر ہونا ضروری ہے۔’’تین‘‘ کہنے سے تین طلاقیں متحقق نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ یہ بات ہر اس حکم میں ضروری ہے جس میں تعدد شرط ہے۔ لعان میں چار مرتبہ شہادت شرط ہے، لہٰذا چار کہنا کافی نہیں ہے۔ اذان میں چار تکبیریں کہنا ضروری ہیں، صرف چار کہنا کافی نہیں ہے۔ جمرات کو سات کنکریاں مارنا ضروری ہے، سات کہنا کافی نہیں ہے۔

دوسری بات یہ کہ جب ایک مجلس میں پہلی طلاق ہو گی، اگر یہ طلاق مؤثر ہے تو اس سے زوجیت ختم ہو گئی، دوسری طلاق عبث اور بے معنی ہے۔ کیونکہ مطلقہ کو طلاق نہیں دی جاتی، منکوحہ کو طلاق دی جاتی ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) سے مروی ہے:

لَا طَلَاقَ اِلَّا بَعْدَ نِکَاحٍ ۔ {فقیہ ۳ : ۴۹۶۔ وسائل الشیعۃ ۲۲ : ۳۱}

نکاح کے بغیر طلاق نہیں ہوتی۔

جو نکاح پہلے ہوا تھا وہ پہلی طلاق سے ختم ہو گیا۔ دوسری طلاق بغیر نکاح کی طلاق ہے، جوبے معنی ہے۔ فقہ جعفریہ کی اس معقولیت کی بنا پر مصر میں جامعۃ الازہر نے اس مسئلے میں فقہ جعفریہ کے موقف کو اختیار کیا اور ایک مجلس میں تین طلاقوں کو ایک طلاق قرار دیا ہے۔

اہم نکات

۱۔ ازدواجی زندگی میں اختلاف رونما ہونے کی صورت میں دوسری طلاق کے بعد یا باعزت زندگی یا باعزت طلاق: فَاِمۡسَاکٌۢ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ تَسۡرِیۡحٌۢ بِاِحۡسَانٍ ۔

۲۔ اسلام کے عائلی قوانین بھی حدود اللہ ہیں۔ لہٰذا ان کی مخالفت ظلم ہے۔ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ یُبَیِّنُہَا لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ ۔

تحقیق مزید:

آیت ۲۲۹: الکافی ۶: ۶۴۔ الفقیہ ۳: ۵۰۲۔ التہذیب ۸: ۲۵۔ الاستبصار ۳: ۲۶۹۔ الوسائل ۲۲: ۱۲۲۔ مستدرک الوسائل ۱۵ : ۳۰۴۔ متشابہ القرآن ۲ : ۱۹۵۔ المسائل الصاغانیۃ ص ۸۵۔

آیت ۲۳۰: الاستبصار ۳ : ۲۷۵۔ الوسائل ۲۲ : ۱۳۲۔ ۱۳۳


آیات 229 - 230