آیت 228
 

وَ الۡمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوۡٓءٍ ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَہُنَّ اَنۡ یَّکۡتُمۡنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِیۡۤ اَرۡحَامِہِنَّ اِنۡ کُنَّ یُؤۡمِنَّ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ وَ بُعُوۡلَتُہُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّہِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ اِنۡ اَرَادُوۡۤا اِصۡلَاحًا ؕ وَ لَہُنَّ مِثۡلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۪ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیۡہِنَّ دَرَجَۃٌ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۲۲۸﴾٪

۲۲۸۔ اور طلاق یافتہ عورتیں تین مرتبہ (ماہواری سے) پاک ہونے تک انتظار کریں اور اگر وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کے لیے جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو کچھ خلق کیا ہے اسے چھپائیں اور ان کے شوہر اگر اصلاح و سازگاری کے خواہاں ہیں تو عدت کے دنوں میں انہیں پھر اپنی زوجیت میں واپس لینے کے پورے حقدار ہیں اور عورتوں کو دستور کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں، البتہ مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

تشریح کلمات

قُرُوۡٓءٍ:

( ق رء ) حیض کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور پاکی کے معنی میں بھی۔ مروی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام قُرُوۡٓءٍ کے بارے میں فرماتے ہیں: اَلْاَقْرَائُ ھِیّ الْاَطْہَارُ ۔ {اصول الکافی ۶ : ۸۹} یعنی قُرُوۡٓءٍ سے مراد طُہْرٌ ہے۔

اَرۡحَام:

( رح م ) رحم کی جمع ہے۔ عورت کا رحم۔ رشتہ داروں کو بھی رحم اس لیے کہتے ہیں کہ سب ایک ہی رحم سے پیدا ہوتے ہیں۔

مَعۡرُوۡف:

( ع ر ف ) وہ دستور جو عقل سلیم، فطری تقاضوں اور اخلاقی اقدار کے مطابق ہو۔ یہ دستور خواہ تدوین شدہ ہو یا غیر مدون ہو۔

تفسیر آیات

اس آیہ شریفہ میں مندرجہ ذیل احکام بیان فرمائے گئے ہیں:

۱۔ عدت :یعنی طلاق کی صورت میں عورتوں کو عدت پوری کرنا ہوگی۔ پس اگر طلاق رجعی ہے تو عدت کے دوران شوہر رجوع کر سکتا ہے۔ یعنی بیوی کو دوبارہ اپنی زوجیت میں لا سکتا ہے، ورنہ عدت پوری ہونے کے بعد عورت دوسری شادی کر سکتی ہے۔ فقہ جعفری کے مطابق یہ عدت اس وقت پوری ہوگی جب عورت تیسرے حیض سے فارغ ہو کر پاک ہو جائے گی، جب کہ شافعی اورمالکی کے نزدیک تیسرا حیض آتے ہی عدت پوری ہو جاتی ہے۔

۲۔ انتہائے عدت: چونکہ عدت کی انتہا کا فیصلہ خون حیض اور حمل ٹھہرنے سے مربوط ہے اور یہ نسوانی امور صرف عورتوں کے ذریعے ہی معلوم کیے جا سکتے ہیں، اس لیے ایسے امور میں عورتوں کی بات کو مستند قرار دیا گیا۔ ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

قَدْ فَوَّضَ اللّٰہُ اِلٰی النِّسَآئِ ثَلاثَۃَ اَشْیَائَ اَلْحَیْضُ وَ الطُّھْرُ وَ الْحَمْلُ ۔ {الوسائل ۲۲ : ۲۲۲}

اللہ تعالیٰ نے تین باتیں عورتوں پر چھوڑ دی ہیں: حیض، پاکیزگی اور حمل۔

اسی بنا پرعورتوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ ان نسوانی امور کو نہ چھپائیں۔ چنانچہ ان مسائل میں دیانتداری اور راستگوئی کو ان کے ایمان باللہ سے مربوط قرار دیا گیا ہے۔

۳۔ حق رجوع: عدت کے دنوں میں شوہر اپنی مطلقہ بیوی کو دوبارہ زوجیت میں واپس لینے کا حق رکھتا ہے بشرطیکہ طلاق رجعی ہو (جس کی تفصیل فقہی کتب میں موجود ہے)، نیز وہ اصلاح اور سازگاری کی نیت سے دوبارہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا چاہتاہو اور اس کا مقصد عورت کو ناروا تکالیف پہنچانا نہ ہو:

وَ لَا تُمۡسِکُوۡہُنَّ ضِرَارًا لِّتَعۡتَدُوۡا ۔۔۔ {۲ بقرہ : ۲۳۱}

اور صرف ستانے کی خاطر زیادتی کرنے کے لیے انہیں روکے نہ رکھو۔

یہ احکام ان عورتوں کے بارے میں ہیں جن کے ساتھ ہمبستری ہوئی ہو، حیض کے قابل ہوں اور حاملہ نہ ہوں۔ اگر طلاق یافتہ عورتیں بانجھ، نابالغہ، یا حاملہ ہوں تو ان کا حکم دوسری آیات میں بیان ہوا ہے۔

۴۔ مساویانہ حقوق: زن و شوہر کے حقوق کے بارے میں قرآن مجید ایک الہٰی قانون بیان فرما رہا ہے۔ اس جملے میں اللہ تعالیٰ نے نہایت شیریں پیرائے میں اسلام کے عائلی قوانین کی اہم ترین شق بیان فرمائی ہے۔ عدل و انصاف پر مبنی اس الہٰی دستور کو سن کر سکون و اطمینان میسر آتا ہے۔ کیونکہ اس آیت میں حق و انصاف کا وہ میزان اور معیار بیان فرمایا گیا ہے جس کو دنیا والے صدیاں گزرنے کے باوجود بھی اپنا نہ سکے۔ اسلام کے اس زرین اصول کے زیر سایہ ازدواجی زندگی میں ہم آہنگی، سکون، توازن اور باہمی تعاون کی پرکیف فضا وجود میں آتی ہے۔ جہاں ہر طرف سے مرد اور عورت کوانسانی اقدار کے مطابق عزت و وقار بخشنے والی یہ آواز گونج رہی ہوتی ہے: ’’عورتوں کو بھی دستور کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پرہیں‘‘۔ البتہ ان میں سے ہر ایک کو اس کے اجتماعی مقام کے مطابق حقوق ملتے ہیں۔ جیسے ضعیف و طاقتور، عالم و جاہل اور صغیر و کبیر میں سے ہر ایک کو اپنا اپنا حق ملتا ہے اورہرایک پر اس کے اجتماعی مقام کے مطابق ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ چنانچہ اس مقام پر عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ عدت پوری کریں اور اپنے حمل وغیرہ کو نہ چھپائیں اور شوہروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ رجوع کرتے وقت ان کے ارادے پاک ہوں اور عدت کے دنوں میں خرچ اور نفقہ وغیرہ ادا کریں۔

۵۔ مرد کی برتری: مرد کو عورت پر ایک لحاظ سے برتری حاصل ہے اور یہ برتری مساویانہ حقوق کے ساتھ ہے۔ جیسا کہ آیت کے سابقہ جملے میں ارشاد فرمایا: ’’عورتوں کو دستور کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں‘‘۔

قرآن نے نوع بشر کو دو حصوں (مرد و عورت) میں تقسیم کیا ہے۔ ان میں سے اللہ کے نزدیک افضل اور زیادہ صاحب عزت وہ ہے جو زیادہ متقی ہو۔ ارشادہوتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ {۴۹ حجرات: ۱۳}

اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔

مرد اور عورت انسانی معاشرے کے رکن ہونے کے لحاظ سے اپنے ارادوں کے مالک اور اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں۔ البتہ عائلی نظام میں گاہے بعض باتوں میں ایک دوسرے پر برتری حاصل ہوتی ہے۔ مثلاً ارث میں مرد کو اور خرچ میں عورت کو برتری حاصل ہے۔ ان تمام باتوں کی بنیاد فطری تقاضے ہیں۔ خوشحال زندگی وہ ہے جو فطری تقاضوں کے مطابق ہو: فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۔ {۹۱ شمس : ۸۔ پھر اس نفس کو اس کی بدکاری اور اس سے بچنے کی سمجھ دی} اس فطری انسان کو برائیوں اور ان سے بچنے کے طور طریقوں کی سمجھ عطا کر دی گئی ہے۔ بنا بریں حقوق میں برابری ایک فطری تقاضا ہے۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ تمام افراد کے حقوق یکساں ہوتے ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد و زن، پیر و جوان، دیوانہ و عاقل، جاہل و عالم اور تجربہ کار و ناداں میں سے ہر ایک کو اپنا اپنا مناسب مقام اور حق دیا جائے اور یہ عین مساوات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حقوق کے حوالے سے آیت مرد اور عورت کو مساویانہ حیثیت دے رہی ہے، جب کہ وہ معاشرتی لحاظ سے مرد کو برتری عطا کر رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی حقوق، تقویٰ و ثواب اور اخروی درجات میں یہ زن و شوہر مساوی ہیں، لیکن عائلی نظام میں مرد کو درجہ دیا گیا ہے۔ کیونکہ عائلی نظام میں عورت ایک ایسی رکن ہے جس پر احساسات اور جذبات غالب ہوتے ہیں اور مرد ایک ایسا رکن ہے جس پر عقل و فکر زیادہ غالب ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پر ان کی ذمہ داریاں بھی جدا ہیں۔ مرد حاکم، قاضی اور محاذ جنگ کے مجاہد ہیں، جب کہ عورتیں تربیت اولاد اور تدبیر خانہ کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ خرچ اور نفقہ چونکہ مرد کے ذمے ہوتا ہے، اس لیے ارث میں اسے دو حصے دے کر اس کا تدارک کر دیا گیا ہے۔

اہم نکات

۱۔ عدت سے جہاں تحفظ نسل مقصود ہے، وہاں ازدواجی زندگی کو انتشار سے بچانے اور زن و شوہر میں صلح و صفا برقرار رکھنے کے لیے غور و فکرکا موقع بھی مل جاتا ہے: وَ لَا یَحِلُّ لَہُنَّ اَنۡ یَّکۡتُمۡنَ۔۔۔ اِصۡلَاحًا

۲۔ عورتوں کو ان کے فرائض کے مطابق حقوق حاصل ہیں: وَ لَہُنَّ مِثۡلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۔۔۔۔

۳۔ عائلی زندگی میں مرد کو کنبے کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے عورت پر برتری حاصل ہے: وَ لِلرِّجَالِ عَلَیۡہِنَّ دَرَجَۃٌ ۔۔۔۔

تحقیق مزید: التہذیب ۸ : ۱۲۲۔ الوسائل ۲۲ : ۲۲۲۔ متشابہ القرآن ۲ ۱۹۹۔


آیت 228