آیت 212
 

زُیِّنَ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا وَ یَسۡخَرُوۡنَ مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۘ وَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا فَوۡقَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ﴿۲۱۲﴾

۲۱۲۔جو کافر ہیں ان کے لیے دنیا کی زندگی خوش نما بنا دی گئی ہے اور وہ دنیا میں مومنوں کا مذاق اڑاتے ہیں مگر اہل تقویٰ قیامت کے دن ان سے مافوق ہوں گے اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔

تفسیر آیات

یہاں کافر اور مؤمن کا کائناتی موقف نیز مادی اور الٰہی انسان کا تصور حیات بیان ہو رہا ہے۔ کافر کے تصور حیات میں دنیاوی زندگی ہی سب کچھ ہے۔ وہ اس زندگی کی حقیقی اقدار کو نہیں جانتا:

یَعۡلَمُوۡنَ ظَاہِرًا مِّنَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۔ {۳۰ روم : ۷}

لوگ تو دنیا کی ظاہری زندگی کے بارے میں جانتے ہیں۔

کافر کی نظر میں یہ زندگی بذات خود مقصد حیات ہے۔ لہٰذا وہ صرف کھانے پینے اور اس کی لذتوں سے بہرہ مند ہونے کو ہی مقصد قرار دیتا ہے:

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یَتَمَتَّعُوۡنَ وَ یَاۡکُلُوۡنَ کَمَا تَاۡکُلُ الۡاَنۡعَامُ ۔۔۔ {۴۷ محمد: ۱۲}

اور جو لوگ کافر ہو گئے وہ لطف اٹھاتے ہیں اور کھاتے ہیں تو جانوروں کی طرح کھاتے ہیں۔

ایسے لوگ انسانی اقدار کو نہیں جانتے اور نہ کسی معیار و میزان سے آشنا ہیں۔ وہ خواہشات کے غلام اور لذتوں کے بندے ہیں۔ اسی مادی، پست اور حقیر کسوٹی کے مطابق وہ ہر چیز کوپرکھنے کے عادی ہیں۔ چنانچہ اسی معیار کے مطابق وہ مؤمنین کو حقیر سمجھتے اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ زندگی کی ان مادی اور ظاہری قدروں کے مطابق وہ اپنے آپ کو مافوق اور بالاتر خیال کرتے ہیں۔ اسی لیے سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا میں انسانی اعلیٰ اقدار کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں اور آخرت کی ابدی اور دائمی زندگی میں بھی اپنے آپ کو بالا اور والا تصور کرتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ معنوی اقدار پر مادی اقدار کو ترجیح دینا کافرانہ سوچ کاشاخسانہ ہے۔

۲۔ اہل ایمان دنیاکی رنگینیوں سے دھوکہ نہیں کھاتے۔

۳۔ ایسا نادان اورپست شخص ہی دنیا کی حقیر زندگی پر فریفتہ ہو سکتا ہے جسے آخرت کی عظیم نعمتوں کا ادراک نہ ہو۔


آیت 212