آیت 210
 

ہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّاۡتِیَہُمُ اللّٰہُ فِیۡ ظُلَلٍ مِّنَ الۡغَمَامِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ قُضِیَ الۡاَمۡرُ ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ﴿۲۱۰﴾٪

۲۱۰۔ کیا یہ لوگ منتظر ہیں کہ خود اللہ بادلوں کے سائبان میں ان کے پاس آئے اور فرشتے بھی اتر آئیں اور فیصلہ کر دیا جائے؟ جب کہ سارے معاملات کو اللہ ہی کے حضور پیش ہونا ہے۔

تشریح کلمات

ظُلَلٍ:

( ظ ل ل ) ظلۃ کی جمع ہے۔ سایہ کے معنوں میں ہے۔

الۡغَمَامِ:

( غ م م ) بادل کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

قرآن مجید میں بعض تعبیرات ایسی ہیں جن میں بظاہر اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف ایک ناممکن شے کی نسبت دی جاتی ہے۔ مثلاً:

وَّ جَآءَ رَبُّکَ وَ الۡمَلَکُ صَفًّا صَفًّا ۔۔۔ {۸۹ فجر: ۲۲}

اور آپ کے پروردگار (کا حکم) اور فرشتے صف در صف حاضر ہوں گے۔

ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کے لیے آنا جانا اس معنی میں ممکن نہیں جس معنی میں جسم رکھنے والی چیزوں کے لیے ممکن ہے۔ اسی لیے مفسرین یہاں تاویل کرتے ہیں اور اس تعبیر کو عذاب یا امر خدا کے آنے وغیرہ کے معنوں میں لیتے ہیں۔

لیکن یہاں کسی تاویل کی ضرورت نہیں کیونکہ اس آیت میں تو یہ ارشاد ہو رہا ہے کہ اللہ کی طرف سے صریح نشانیوں کے بعد بھی تمہیں یقین نہیں آتا اور تردد کاشکار رہتے ہو اور اس انتظار میں ہوکہ خدا خود اپنے فرشتوں سمیت تمہارے سامنے آجائے، تویہ انتظار نامعقول ہے کیونکہ تمہارے ایمان کے لیے ہماری صریح نشانیاں کافی ہیں اور ان کے باوجود ایک محال امرکا مطالبہ ان کے ایمان کے لیے عذر نہیں بنتا۔

محسوس پرستوں کا یہ نامعقول مطالبہ ہمیشہ رہا ہے۔ چنانچہ رسول کریم (ص) سے ایک مقام پر ان لوگوں نے مطالبہ کیا:

اَوۡ تَاۡتِیَ بِاللّٰہِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ قَبِیۡلًا ۔ {۱۷ بنی اسرائیل: ۹۲}

یا خود اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئیں۔

اہم نکات

۱۔ روئیت خدا کامطالبہ نامعقول اور محسوس پرستی کا نتیجہ ہے۔

۲۔ ہٹ دھرمی اور انتہا پسندی محسوس پرستوں کا خاصہ رہی ہے۔

تحقیق مزید: بحار الانوار ۹ : ۲۸۲، عیون اخبار ۱ : ۱۲۵


آیت 210