آیات 208 - 209
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ وَ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ﴿۲۰۸﴾

۲۰۸۔ اے ایمان لانے والو! تم سب کے سب (دائرہ ) امن و آشتی میں آ جاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

فَاِنۡ زَلَلۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡکُمُ الۡبَیِّنٰتُ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۲۰۹﴾

۲۰۹۔اور اگر ان صریح نشانیوں کے تمہارے پاس آنے کے بعد بھی تم لڑکھڑا جاؤ تو جان رکھو کہ اللہ بڑا غالب آنے والا، باحکمت ہے۔

تشریح کلمات

السِّلۡمِ:

( س ل م ) امن، صلح اور آشتی۔ ایک اور جگہ فرمایا: وَ اِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلۡمِ ۔ {۸ انفال: ۶۱} ’’اور اگر وہ صلح و آشتی کی طرف مائل ہو جائیں‘‘۔

کَآفَّۃً:

( ک ف ف ) پوری جماعت۔ سب کے سب۔

تفسیر آیات

خدا اور رسول(ص) پر ایمان لانے کے بعد مؤمنین کے لیے ایک دعوت عام ہے کہ وہ بلااستثنا سب کے سب امن و سکون و صلح و آشتی کے دائرے میں داخل ہو جائیں: السِّلۡمِ اور کَآفَّۃً سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تمام مؤمنین کو ایک ہی جماعت کے اندر امن و سکون سے رہنے اور آپس میں ہر قسم کی جنگ و جدال سے اجتناب کرنے کی دعوت دے رہا ہے:

۱۔ خدا پر ایمان کے بعد ظلم اور زیادتی جیسے گناہوں سے بچیں اور اپنے ضمیر اور وجدان کے مطابق عمل کر کے نفسیاتی طور پر امن و سکون حاصل کریں:

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا اِیۡمَانَہُمۡ بِظُلۡمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡاَمۡنُ ۔۔۔۔۔ {۶ انعام : ۸۲}

جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے ملوث نہیں کیا، یہی لوگ امن میں ہیں۔

۲۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کرکے اس کی شریعت کے ساتھ عملی مخاصمت سے اجتناب کرو:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۔۔۔۔ {۴ نساء : ۵۹}

اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں، ان کی اطاعت کرو۔

بعض مفسرین نے السِّلۡمِ سے مراد اطاعت لی ہے۔ اور بعض روایات میں ائمہ اہل بیتؑ سے مروی ہے کہ ہماری ولایت و محبت ہی السِّلۡمِ ہے۔ بنابریں یہ لفظ اطاعت کے مفہوم کے تحت آ جاتا ہے۔

۳۔ بعض مفسرین کے نزدیک السِّلۡمِ سے مراد اسلام ہے۔ لیکن یہ معنی قرآن کی مجموعی تعلیمات کے مطابق درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اسلام کے بعد ایمان کا مرحلہ آتا ہے:

قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا ۔۔۔ {۴۹ حجرات: ۱۴}

بدوی لوگ کہتے ہیں: ہم ایمان لائے ہیں، کہدیجیے: تم ایمان نہیں لائے بلکہ تم یوں کہو: ہم اسلام لائے ہیں۔

جب کہ اس آیت میں اہل ایمان سے خطاب ہے۔ لہٰذا مؤمنین سے یہ کہنا کہ تم اسلام میں داخل ہو جاؤ بظاہر درست معلوم نہیں ہوتا، مگر یہ کہ اسلام سے مراد زبانی اقرار نہ ہو، بلکہ قلباً ہر معاملے کو اللہ کے سپرد کرنا مراد ہو۔ یعنی اللہ و رسول(ص) کے ہر فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرو۔ اس میں اپنا فیصلہ شامل نہ کرو۔ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ مِنۡ اَمۡرِہِمۡ ۔ {۳۳ احزاب: ۳۶}

اور کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جب اللہ اور اس کے رسول کسی معاملے میں فیصلہ کر دیں تو انہیں اپنے معاملے کا اختیار حاصل رہے۔

ہاں اس اسلام اور تسلیم میں داخل ہونے کے بعد ہر طرح سے امن و سلامتی ہو گی۔ جیسا کہ مروی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے ارشاد فرمایا:

ااَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہٖ وَ یَدِہِ ۔ {اصول الکافی ۲ : ۲۳۔ الفقیہ ۴ : ۳۶۲}

مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔

اس کے بعد ارشاد ہو تا ہے : وَ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ’’شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو‘‘۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کی پیروی کرنے کی صورت میں انسان کو امن و سلامتی میسر نہیں آتی، نہ تو اپنے ضمیر کی طرف سے اور نہ ہی معاشرے کی طرف سے۔ شیطان کا پیروکار دنیا میں بھی ہمیشہ بدامنی کا شکار رہتا ہے اور آخرت میں بھی اسے سکون میسر نہ ہوگا۔

احادیث

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً کی تفسیر میں مروی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:

فِی وِلَایَتِنَا ۔ {اصول الکافی ۱ : ۴۱۷}

ہم اہل بیت (ع) کی محبت میں داخل ہو جاؤ۔

دوسری روایت میں فرمایا:

اُمِرُوْا بِمَعْرِفَتِنَا ۔ {بصائر الدرجات ص ۵۲۵}

انہیں ہماری معرفت کا حکم دیا گیا ہے۔

دیگر متعدد احادیث میں وارد ہے کہ اہل بیت علیہم السلام اہل ارض کے لیے امان اور سفینۂ نجات ہیں۔

اہم نکات

۱۔ ایمان کے بعد سب سے اہم انسانی ضرورت ہمہ گیر اور مکمل امن و امان ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۔

۲۔ شریعت پر مکمل عمل، جملہ امور کو اللہ کے حوالے کرنے اور اللہ کی طرف سے معین اولی الامر کی معرفت و اطاعت کے ذریعے ہی امن و امان حاصل ہو سکتا ہے۔

۳۔ خداکے احکام اور اس کی طرف سے مقرر شدہ حاکم کی مخالفت ظلم اور بدامنی کے بنیادی اسباب میں سے ہے۔

تحقیق مزید: آیت ۲۰۸ : الکافی ۱ : ۴۱۷، تفسیر العیاشی ۱ : ۱۰۲، تفسیر فرات ص ۶۶۔


آیات 208 - 209