آیت 184
 

اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ ؕ وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۸۴﴾

۱۸۴۔( یہ روزے) گنتی کے چند دن ہیں، پھر اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں مقدار پوری کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرتے ہیں وہ فدیہ دیں جو ایک مسکین کا کھانا ہے، پس جو اپنی خوشی سے نیکی کرے تو اس کے لیے بہتر ہے اور اگر تم سمجھو تو روزہ رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے۔

تشریح کلمات

یطیقون:

اَلْاِطَاقَۃ پوری طاقت صرف کرنا۔

فِدۡیَۃٌ:

وہ مال جو کسی مشقت کے بدلے ادا کیا جاتا ہے۔ مثلاً اسیری اور روزے کا عوض۔

تفسیر آیات

اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ گنتی کے چند دن، یعنی ماہ رمضان۔ کیونکہ بارہ مہینوں میں سے ایک ماہ گنتی کے چند دن ہی ہوتے ہیں۔ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سال میں چند دن یعنی ایک ماہ کے روزے رکھنا کوئی پرمشقت کام نہیں ہے۔

نسخ کے شوقین بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ سے مراد ہر ماہ کے تین ایام اور روز عاشور کا روزہ ہے جو بعد میں منسوخ ہو گیا۔ یہ قول ان روایات پر مبنی ہے جو بنی امیہ کے دور میں فضائل عاشور کے بارے میں گھڑی گئیں اور جن میں روز عاشور کو عید المسلمین قرار دیا گیا ہے۔

مسافر اور مریض کا روزہ: روزے کا حکم بیان فرمانے کے بعد مسافر اور مریض کے لیے فرمایا کہ اگروہ ان معدود ایام میں روزہ نہ رکھ سکیں تو اس مقدار کو دوسرے دنوں میں پورا کرسکتے ہیں کیونکہ مقررہ دنوں میں نہ سہی لیکن اصل روزہ تو ہر حال میں بجا لانا ہوگا۔

رخصت یا عزیمت؟: اکثر اہل سنت فقہا کے نزدیک مسافر اور مریض کو صرف اجازت ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں اوربعد میں قضا بجا لائیں۔ فقہ اہل بیت علیہم السلام کے مطابق مسافر اور مریض کا روزہ باطل ہے۔ انہیں بعد میں اپنے روزوں کو بجا لانا ہو گا۔ چنانچہ ظاہر آیت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے: فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ کہ قضا ضروری ہے اور اگرقضا ضروری ہے تو افطار بھی ضروری ہے: وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ۔ جو روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرتے ہیں وہ فدیہ دیں، جو ایک مسکین کا کھانا ہے۔ یہ حکم معمر لوگوں اور دائمی مریضوں، بوڑھے، مریض، زیادہ پیاس والے، وہ ماں جو اپنے بچے کے لیے خائف ہو، کے لیے ہے کہ انہیں روزہ رکھنے میں معمول سے زیادہ مشقت اٹھانا پڑتی ہے۔ عطاء نے ابن عباس سے روایت کی ہے: یُطِیۡقُوۡنَہٗ یعنی یکلفونہ ۔ اس کا معنی مشقت ہے۔ یہاں نسخ کے شائقین کی دو تفسیریں ہیں: ایک یہ کہ یُطِیۡقُوۡنَہٗ کا مطلب یہ ہے کہ جو طاقت رکھنے کے باوجود روزہ نہیں رکھتے وہ فدیہ دیں۔ یعنی شروع میں لوگوں کو یہ اختیار حاصل تھا کہ روزہ رکھیں یا فدیہ دیں۔ بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا اور روزہ رکھنا ضروری قرار پایا۔

دوسری تفسیراس سے بھی بعید از قیاس ہے اور وہ یہ ہے کہ یُطِیۡقُوۡنَہٗ کی ضمیر روزے کی طرف نہیں طعام کی طرف جاتی ہے اور مطلب یہ نکلتا ہے کہ مسافر اور مریض دوسرے دنوں میں روزہ رکھیں اور اگر وہ طعام دینے کی طاقت رکھتے ہیں تو قضا کی جگہ فدیہ دے سکتے ہیں۔ بعد کی آیت سے یہ حکم بھی منسوخ ہو گیا۔ {تدبر قرآن ۱: ۴۴۸}

تعجب کا مقام ہے کہ انہوں نے طاقت کو استطاعت کے معنوں میں لیا ہے جو سراسر خلاف ظاہر ہے اور استعمالات عرب کے بھی خلاف ہے چونکہ طاقت بدنی قوت کو کہتے ہیں جیسے: قَالُوۡا لَا طَاقَۃَ لَنَا الۡیَوۡمَ بِجَالُوۡتَ وَ جُنُوۡدِہٖ ۔ {۲ بقرہ : ۲۴۹۔ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکر کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے}۔ اور فدیہ دینا مالی استطاعت پر موقوف ہے۔ اس کے لیے لفظ طاقت استعمال ہو ہی نہیں سکتا۔بدنی قوت سے مربوط ہونے کی وجہ سے روزے میں لفظ طاقت کا استعمال درست ہے جب کہ مالی استطاعت کے معنوں میں یہ استعمال کسی طور بھی مناسب نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس کی روایت ہے: یُطِیۡقُوۡنَہٗ سے مراد سن رسیدہ مرد اور عورت ہیں۔ (تفسیر طبری در ذیل آیت)۔

روزے کے فوائد: روزے کے احکام بیان فرمانے کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ روزہ رکھنے میں خود تمہاری بہتری ہے اور اس بہتری کو انسان کی معلومات کے ساتھ مربوط فرمایا اور ارشاد ہوا: وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۔ ’’اگر تم علم رکھتے تو روزہ رکھنے میں خود تمہاری بہتری ہے۔‘‘ جوں جوں انسان کا اپنے اور کائنات کے بارے میں معلومات کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا، روزے کے فوائد ان پر زیادہ سے زیادہ عیاں ہوتے جائیں گے۔ جیسا کہ پہلے کی نسبت آج کا انسان روزے کے طبی، نفسیاتی اور دیگر فوائد کو بہتر سمجھ سکتا ہے کہ روزے میں قوت ارادی کی تربیت، صبر و تحمل کی مشق، ایثار و قربانی کا درس ہے اور روزہ خلوص و محبت کا نمونہ ہے۔

اہم نکات

۱۔ اسلامی احکام انسان کی مختلف جسمانی و نفسیاتی مصلحتوں سے ہم آہنگ ہیں۔

۲۔ جوں جوں علمی ترقی ہوگی، اسلام کی حقانیت اسی قدر زیادہ واضح ہوگی۔

تحقیق مزید:

الکافی ۴: ۸۶۔ برائے تحقیق آیہ وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ ملاحظہ فرمائیں تفسیر عیاشی ۱: ۷۸۔ ۸۹


آیت 184